’’انسان نے اپنا آپ بیچ ڈالا‘‘

 آج ہر پیشہ ور انسان تیل سرمہ لگا کر  اپنے اپنے پیشے کی اجناس مارکیٹ ٹیبل پر سجائے اپنی پوری ہنر مندی اور تاجرانہ کاریگری کے یقین کے ساتھ ڈٹ کر بیٹھ گیا ہے لیکن کم علم اور بدنیت تاجر کو تو یہ علم ہی نہیں ہو سکا کہ دراصل وہ تاجرنہیں۔ تاجر تو وہ خرید ارہے جو تاجر کا سکون ایمان او ر نیند سستے داموں خرید کر اسے کنگال کیئے جارہاہے۔ خسارے کا یہ کاروبار مشیت ایزد ی نے اس بدنیتی اور بے ایمانی کی سزا کے طور پردیاہے جو اس تاجر نے اپنے کاروبار میں روا رکھی ہے۔ کاروبار کے تمام اصول ضابطے ، ضمیر داری اور ایمانداری اس نے اپنے میزان کے پلڑوں سے کھینچ کر باہر پھینک دیی تھی۔ سزا کے طور پر یہ سارے مناظر پوری وضاحت کے ساتھ اس کے سامنے بچھا دیے گئے ہیں مگر یہ تاجر اندھا بہرا اور پچھل پیراہوگیا ہے۔
ایک ڈاکٹر اپنے تمام احساسات اور غیر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو اپنی کرسی کی پشت کے پیچھے پھینک کر دن رات مریضوں سے کمائی کرنے میں اپنے پورے وجود کے ساتھ بر سرپیکار ہو گیا ہے۔ اس کمائی سے جیبیں بھر کر جب رات گئے وہ واپس گھر آتا ہے تو بیوی اور بچے انتظار کر کے سو چکے ہوتے ہیں۔ نیند کی ا س نعمت اور قیمت سے محروم یہ ڈاکٹر دو رخی دولت اس دولت سے نہیں خرید سکتا جو وہ سارا دن کماتا رہا ہے اور مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود بیمار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر مریضوں سے کمایا ہوا یہ مال سود کے ساتھ اس کی اپنی ہی بیماریوں پر ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ مریضوں کو اپنا وقت بیچ کر جب وہ اْن کا معائنہ کر تا ہے تو ان کے ساتھ کسی ہمدردی یا احساس انسانیت کے ساتھ ہر گز نہیں۔ایک انجئینر جب کسی معمولی کام کے عوض کسی بھی خریدار کی جیب کی توڑ پھوڑ شروع کرتا ہے تا کہ اپنے آپ اور اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ دنیاوی سہولیات مہیا کرے تو یہ بھی جس خسارے سے دو چار ہوتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ایسے ہی تاجروں کے بچے ان کو ان کے بڑھاپے میں بے آسرا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور ایسے تاجر بے بسی سے اپنے اپنے بستروں پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے ٹائلیٹس میں اوندھے منہ شرمنا ک سین میں لت پت پڑے ہوتے ہیں۔
کسی بہت ہی بڑے تاجر کا بیٹا ڈرگز ٹریفکنگ میں پکڑا گیا تو کسی صحافی نے اس سوال کیا کہ آپ نے اتنا بے حساب مال متاع رکھنے کے باوجود ایسا کام کیوں کیا تو اس نے ایک جواب دیا اس نے کہا میرے والد مجھے اتنا زیادہ جیب خرچ دیتے تھے کہ میں سوچا رہتا تھا کہ ا س کو کہاں خرچ کروں جبکہ دنیاداری کی ہر سہولت میرے پاس میری ضرورت سے بھی وافر تھی تو میں نے نشہ کرنا شروع کر دیا اور پھر دوسروں کو اس لذت سے آشنا کرنے کے لیے میں نے اس کا کاروبار شروع کر دیا۔ میرا کاروبار اتنا پھیل گیا اور اتنی تباہی مچانے لگ گیا کہ اب پکڑا گیا ہوں او ر مجھے مکمل عمر قید ہوئی ہے۔ چند سالوں بعد معلوم ہوا کہ والد صاحب کا سارا سرمایہ بیٹے کو عمر قید سے چھڑوانے پر خر چ ہوگیا۔
ہر سیاستدان بھی ایک تاجر ہے۔ وہ جھوٹ فریب دغا اور دھوکہ کی بڑی بڑی بوریاں پیٹھ پر لادے میدان الیکشن میں پہنچ جاتاہے اور بے چارگی اور بے بسی کی صورت بنائے لوگوں سے اس مزدوری کی اجرت مانگتا ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے میرے اتنے بوجھ کی اجرت صرف ایک روپے کے ایک نوٹ کے برابر صرف ایک ووٹ کی پرچی ہے۔ کیا یہ سودا مہنگا ہے ؟۔ انسان نے اپنا سارا کاروبار ہی بدی ، بد نیتی بے ایمانی بے اصولی اور بے راہ روی کے اجناس سے شروع کیا ہو تو پھر وہ کیونکرخسارے سے دو چار نہ ہو۔ ورنہ انسان تو خالق کائنات کی بہت ہی طاقت ور مخلوق ہے۔ اپنی مدد اور محبت میں پرور دگار نے انسان کو اس طاقت اور توانائی کے مناظر بے نقاب کیے تو انسا نو ں نے معجزے کر ڈا لے اور خدا کو پہچان لیا۔ کیونکہ وہ اس طاقت سے آشنا نہ تھے۔ پھر ترقیاں ہوئیں، انسان مزید طاقتور ہوتا گیا اور مادی دنیا میں معجزات کر ڈالے۔ 
سائنسی ترقی نے انسان کی اس طاقت کو کنفرم کر دیا مگر انسان اس طاقت کو غیر منطقی بے معنی او منفی کاروبار میں استعمال کرنے لگ گیا ہے۔اگر انسان کا ہی بنایا ہوا ایک میزائل آسمانوں کے پار زمین کے نیچے اور سمندروں کے طوفانی پانیوں میں اپنا ٹارگٹ یا ہدف ڈھونڈ نکالتا ہے تو انسان کیوں لایقینی اور سطحی کاروبا ر میں الجھ کر اپنا اصلی ٹارگٹ ڈھونڈنے سے الگ ہوگیا ہے۔ اپنے آپ سے بچھڑ گیا ہے اپنے آپ کو سستے داموں فروخت کر دیا ہے۔ وہ اپنی قوت ارادی سے جو اس کا انسانی شرف اور ہتھیار ہے، صحت اور سکون کی دولت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے بغیر کسی فالتو محنت کے۔ مگر فی الحال انسان کو یہ نیا  کاروبار شروع کرنے کی سمجھ نہیں آرہی حالانکہ زندگی کے میزان کے دو پلڑوں میں مرض اور مرگ دو اجناس کی طرح ہر لمحہ اس کی آنکھوں کے سامنے جھول رہے ہیں۔ کیا یہ تا جر انسا ن ان دو اجناس کو اپنی کسی بھی تاجرانہ ہنر مندی یا کاریگری سے بیچ دینے میں کامیا ب ہو سکتا ہے؟

ای پیپر دی نیشن