الیکشن 76سال سے ہو رہے ہیں۔ جمہوریت میں الیکشن کا فائدہ صرف اور صرف عوام کو ہوتا ہے۔ عوام اپنے ووٹ سے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور وہ بے لوث کسی بھی قسم کا احسان جتائے بغیر عوام کی شب و روز خدمت کرتے ہیں۔وہ عوام کے پیسوں کو امانت سمجھ کر عوام پر خرچ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ’احتساب‘ کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے مافیاز ریاست سے بہت زیادہ طاقتور بن گیا ہے۔ لہٰذا ان کا مقصد اقتدار میں آ کر ملک کو لوٹنا اور صرف لوٹنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے76سال سے الیکشن بھی ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ اقتدا رمیں بھی آتے ہیں مگر 76سالوں میں عوام کو بنیادی ضرورتیں فراہم نہیں کر سکے۔
الیکشن میں لمبے لمبے منشور بھی دیتے ہیں۔ سہانے خواب بھی دکھاتے ہیں مگر بعد میں اپنی اولادوں کے لیے اندرون وبیرون ملک محلات اور جائیدادیں بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ آج 76سال بعد بھی سردیوں میں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ مسلسل ہو رہی ہے اور گرمیوں میں تو گیس و بجلی دونوں کی لوڈشیڈنگ مسلسل رہتی ہے۔ تعلیم کی حالت انتہائی خراب ہے۔ سرکاری و تعلیمی اداروں میں گھوڑے باندھے جاتے ہیں۔
آج سرکاری وتعلیمی اداروںمیں عام شہری بھی اپنے بچے کو بھیجنا پسند نہیں کرتا۔ انہی اشرافیہ نے اپنے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بنا لیے ہیں۔ ادھر بھی عوام کو نام نہاد تعلیم کے نام پر لوٹتے ہیں۔ یہ سیاستدان کم بلکہ ٹھیکیدار زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ٹھیکیدار کو جب ایک کروڑ روپیہ کسی منصوبے کے لیے ملتا ہے تو وہ سب کو حصہ دے کر دس لاکھ اس منصوبے پر لگاتا ہے باقی سب کھا جاتا ہے، کیوں کہ اسے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اگر کوئی پوچھے گا تو وہ اسے بھی دے کر اس کا منہ بند کر دے گا۔ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ عوام کو بے وقوف بناتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں مگر کھانے کے لیے سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے PDMحکومت میں سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر مزے لیے مگر عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور بلوں میں شب روز اضافے کا تحفہ دیا۔ اب الیکشن میں ایک د وسرے کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔بخدا اس ملک میں جب تک بلاتفریق احتساب نہیں ہوگا۔ کبھی بھی عوام ترقی نہیں کریں گے۔ چائنا ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔ آج سپر پاور ہے۔ کیوں وہاں کرپشن کی سزا موت ہے۔ ہمارے ہاں حکومت نے قانون سازی کرکے 50کروڑ تک کی کرپشن کو باقاعدہ قانونی تحفظ فراہم کر دیا ہے۔ بلاشبہ پارلیمنٹ مقدس ہے مگر ایسی قانون سازی کا تو سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے تھا۔ فرض کریں پارلیمنٹ میں موجود چار پانچ سو افراد اگر ہر ایک پچاس کروڑ کی کرپشن بھی کرے تو عوام تو بے چارے دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ اسلامی تعلیمات سے ہم بہت دور ہو چکے ہیں۔ عارضی زندگی ہے۔ آخرت میں جواب بھی دینا ہے۔ چھ فٹ کی قبر ہے۔ دفنانے کے بعد اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ صرف اپنے اعمال ہی کام آتے ہیں۔ ہم نے تو یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔
اس مملکت کے لیے کچھ مقاصد بھی تھے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ان مقاصد کا کسی کو علم بھی نہیں۔ عوام کا پیسہ عوام پر اگر خرچ بھی کیا جاتا ہے تو احسان بھی جتایا جاتا ہے۔ اپنے منشور میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ کشمیر کے حصول کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائیں گے۔ کشمیریوں کو ہندوئوں کے ظلم سے آزاد کرائیں گے۔ فلسطین کے لیے عملی طور پر کوششیں کریں گے۔ قومی زبان اردو کو نافذ کریں گے۔ آئی ایم ایف سے نجات بھی دلائیں گے اور آئی ایم ایف یا دیگر ممالک سے بھیک نہیں مانگیں گے۔
آج چائنہ کے سی پیک اور امریکی منصوبوں پر ہمارے حکمران خوشیاں مناتے ہیں۔ بخدا ہم آج بھی غلام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آزاد قومیں نہ تو دوسروں کی مقروض ہوتی ہیں نہ ہی دوسروں سے بھیک مانگتی ہیں۔ آج امریکہ ’صاحب بہادر‘ کے اشاروں پر ہم ناچتے ہیں۔
جب تک ہمارے ملک میں کرپشن کی سزا موت نہیں ہو گی ہم ترقی نہیں کر سکیں گے۔ مافیاز کو لگام ڈالنی ہو گی۔ کروڑوں روپیہ لگا کر الیکشن میں اشرافیہ خدمت کے لیے حصہ نہیں لیتی بلکہ پھر اربوں روپیہ عہدوں پر بیٹھ کر لوٹتے ہیں۔
76سال سے آپ الیکشن لڑ کر حکومتوں میں آ رہے ہیں مگر آج تک آپ عوام کو روٹی، کپڑا، مکان نہیں دے سکے۔ اچھی معیاری تعلیم ا ور صحت کے لیے معیاری اسپتال نہیں دے سکے۔ بنیادی ضرورتیں پوری نہیں کر سکے۔ اپنی جائیدادوں کا آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے وہ کہاں کہاں ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس پور املک گروی رکھ کر قرضہ لے لیا ہے۔ کپڑے بیچ کر آ پ نے آٹا تو سستا نہیں کیا تھا مگر آج الیکشن کے لیے میڈیا پر اربوں کے اشتہارات ضرور چلا دیئے۔ الیکشن کے بعد پھر آپ آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے، اربوں ڈالر بطور قرض لیں گے۔ ان کی بے پناہ شرائط مانیں گے۔ عوام کے بلوں میں ٹیکسز کی مد میں اضافہ کریں گے۔ مال بنائیں گے اور ناجائز مراعات لیں گے۔ عوام کو حسب روایت الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ جب تک کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت قانون نہیں ہوگا۔ بخدا اگر آج کرپشن کی سزا کم از کم موت مقرر کردی جائے تو نہ صرف پاکستان دنیا کی عظیم ترین فلاحی ریاست بنے گا بلکہ اقتدار میں ہر کوئی صرف مزے کے لیے آنے کی جسارت بھی نہیں کرے گا۔ ہر کسی کا بلاتفریق احتساب ہو، نگران حکومت کا بھی احتساب ہو۔ سوال یہ ہے کہ احتساب کرے گا کون؟ PDMنے 50کروڑ تک کرپشن کرنے کی قانون سازی کی تھی۔PDMمیں وزیراعظم کی پارٹی نے ہی منشور میں نیب کے خاتمے کا عندیہ دیا ہے۔ تو الیکشن کا فائدہ صرف اشرافیہ کو ہوگا۔
’’الیکشن کا فائدہ کس کو ہوگا؟‘‘
Feb 10, 2024