ہفتہ‘ 29رجب المرجب 1445ھ ‘ 10 فروری 2024ء

عوامی مسلم لیگ نے دونوں حلقوں سے شکست تسلیم کر لی- 
شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ راشد دونوں اپنی اپنی سیٹوں سے ہار گئے۔ شکست شیخ راشد نے تسلیم کی ہے جبکہ شیخ رشید نے، جو شیخ چلا کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔چلا بھی لگایا مگر رند کے رند رہے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔ان تک جیل میں یہ خبر پہنچی تو اس پر انہوں نے کیا کہا ہوگا: غماں دی ماری جندڑی علیل اے۔ ایک قید اوپر سے سردی اور اس کے اوپر یہ شکست ،شیخ راشد نے یہ بھی کہا کہ جہاں ہمیں اپنی شکست کا غم ہے وہیں نون لیگ کے ہارنے کی خوشی بھی ہے۔شریکوں کی دیوار گرانی ہے بھاویں اس کے نیچے آ کر اپنی مجھ مر جائے۔ شیخ راشد کا انٹرنیٹ سروس بند ہونے کے باوجود پیغام جاری ہوااور نشر بھی ہوا۔انتخابات کے روز آٹھ فروری کو انٹرنیٹ سروس بند ہوئی جو اگلے روز تک بند رہی۔خواتین بچے منڈے کڑیاں بابے سب حسب توفیق موبائل اور انٹرنیٹ کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ یہ لت پڑ جائے تو لت کھا کے بھی لگی رہتی ہے۔روٹی نہ ملے ،گزارا ہو سکتا ہے۔ موبائل اور اس پر نیٹ نہ ہو تو ہو دنیا ویران زندگی ہے۔ بیابان لگنے لگتی ہے۔الیکشن کمیشن نے دو اعلان بڑے وثوق سے کیے تھے۔ ایک یہ کہ انٹرنیٹ سروس بند نہیں ہوگی دوسرے کہا کہ ہمارے پاس متبادلات در متبادلات ہیں۔ نتائج چار گھنٹے میں جاری کر دیں گے۔یہ چار گھنٹے شیطان کی آنت کی طرح بن گئے چار گھنٹوں کو زلف یار سمجھنے والے مایوس ہوئے۔ انٹرنیٹ ایسا بند ہوا کہ استعمال کرنے والوں کی سانسیں بند ہونے لگیں۔ دفاتر اور گھروں میں لگی وائی فائی کام کر رہی تھی جو موبائل پر گزارا کرتے ہیں جن کو بہت کچھ دیکھنا اور کہنا سننا ہوتا ہے سب سے چوری چوری، وہ منہ بسورتے رہے۔ انٹرنیٹ کا بہترین استعمال کرنے والے سکالرز، پڑھے لکھے لوگ ان کی تعداد لا تعداد ہے۔ کاروبار کے لیے بھی نیٹ ضروری ہو گیا ہے۔ ان کے لیے بھی پریشانی ہوئی۔ آپ کے پاس موبائل ہے انٹرنیٹ سروس بند ہے کال آ جا نہیں رہی۔گویا آپ گلوبل ویلج کے دور میں بھی پتھر کے دور میں بیٹھے ہیں۔پانچ سال سات لاکھ کے موبائل کی حیثیت پیپر ویٹ سے زیادہ کی نہیں رہتی۔ آپ کا رابطہ وہیں تک ہے جہاں تک آپ کی آواز جا سکتی ہے۔دوسرے محلے گاؤں شہر علاقے تک خود جانا پڑے گا۔جدتوں سے پہلے مشکلات کی حدتوں کا دور تھا۔ شادی اورمرگ کے لیے لاگی دوڑائے جاتے تھے۔کبھی 10پندرہ دن کے لیے انٹرنیٹ اسی طرح سے بند ہو جائے تو واقعی لگے گا کہ وہ دور کیسا تھا جس کو پتھر کا دور کہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
آج دالوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔
گھر کی مرغی دال برابر محاورہ سنا تھا۔ یہ ان دنوں کا محاورہ ہے جب دالیں سستی ہوا کرتی تھیں۔مرغی کا کھانا عام لوگوں کے لئے حسرت ناک خواب ہوا کرتا تھا۔ مرغی تین صورتوں میں ہی عموماً پکائی اورکھائی جاتی تھی۔مرغی بیمار ہو جائے۔ گھر کا کوئی جی بسترِ مرگ پر پڑ جائے۔تیسری صورت یہ ہوتی کہ منگنی شادی کے لیے مہمان منڈا دیکھنے آ جائیں۔ آج دس فروری کو دالوں کا عالمی دن منایا جارہاہے۔چلیں دالیں بھی اپنا دن منائے جانے پر دال دال ہو گئیں، خوش ہو گئیں نہال ہو گئیں۔ جب دالیں سستی ہوا کرتی تھیں گھروں میں پکتی ہی چلی جاتی تھیں تو کھا کھا کر اکتا کر کچھ دل جلے کہہ دیتے تھے۔ ہمارے لئے دالیں وبال ہو گئیں۔" مہمان عام" گھر آیا روز دال پکتی .ایک روز تاریخ کا تذکرہ ہوا۔ مہمان سے پوچھ لیا آج کیا تاریخ ہے تو جھنجھلائے ہوئے مہمان نے کہا دال کی 9 تاریخ ہے۔ 
٭٭٭٭٭
کراچی سرد ہوائوں کی لپیٹ میں آگیا۔
ملتان کو گرم فضائوں کا جبکہ کراچی کو معتدل ہوائوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ سمندر کے بالکل اوپر واقع شہر کو پینے کے پانی کا سامنا رہا ہے۔
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ، رزاقی نہیں ہے
سمندر کے اوپر شہر اور پانی سے محروم ! کراچی کا موسم معتدل رہتا ہے جہاں کڑاکے کی گرمی پڑتی ہے نہ زور کی سردی۔ بارشیں بہت کم ہوتی ہیں مگر جب ہوتی ہیں تو بے شمار اور بے موسم بھی برستی ہیں۔ اب کراچی سرد ہوائوں کی لپیٹ میں آیا ہے تو کراچی والے اتنے ہی پریشان ہیں جتنے بے موسمی بارشوں سے ہوتے ہیں۔ دوچار روز قبل پنجاب میں اندھا دھند پڑنے والی دھندکی طرح کراچی میں اندھا دھند بارش ہوئی۔ یہ بارش 8 فروری کے الیکشن سے تین روز قبل ہوئی تو کئی لوگوں کی سیاست کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر ساتھ لے گئی۔ وہ اب سوچ رہے ہیں "دس کی میں بازار وچوں کھٹیا"۔ یعنی سیاست کے بازار سے کیا کمایا ہے۔ ہر علاقے کے لوگ موسم کے مطابق زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں اور اس کے مطابق انتظام بھی کرکے رکھتے ہیں۔ کراچی والے کڑاکے کی سردی اور کڑکتی گرمی پڑنے پر ناگہانی آفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب کے 66 ہزار قیدیوں میں سے صرف ڈیڑھ ہزار نے ووٹ کاسٹ کئے 
باقی قیدیوں نے ووٹ کاسٹ کرنے سے گریز کیا، انکار کیا یا ان تک یہ سہولت ہی نہ پہنچائی گئی۔ ان کے کاسٹ کئے گئے ووٹ ان کے اپنے حلقوں میں پہنچا دئیے گئے۔ وہ گنے جا چکے۔ شمار کئے جا چکے۔ اوورسیز پاکستانی ووٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٹرانسجنڈر نے پہلے ووٹ کا مطالبہ کیا جو مان لیا گیا۔ پھر ان کی طرف سے الگ الیکشن کا مطالبہ ہوا کہ ان کی آبادی کے لحاظ سے الگ سیٹیں بنا کر الیکشن کرائے جائیں۔ یہ مطالبہ اور معاملہ ابھی معلق تھا کہ انہوں نے کہہ دیا کہ ہمارے پولنگ سٹیشن بھی الگ بنائے جائیں۔ کچھ منچلے مرد تو چلیں چھیڑ چھاڑ کرنے میں بدنام ہیں۔ خواتین کے پولنگ بوتھوں پر کیا مسئلہ ہے۔ بہرحال ان کو حق ہے جو چاہیں مطالبہ کریں۔ آگے ماننے والوں کی صوابدید ہے کہ مانیں یا نہ مانیں۔ پنجاب میں ایک قبیلہ اتنا ادھار مانگتا ہے کہ اس کا نام ہی ادھارئیے پڑ گیا۔ ان کے سردار سے کسی نے پوچھ لیا آپ بار بار ادھار مانگتے ہیں۔ جس سے ادھار ملنے کی امید نہ ہو اس سے بھی مانگ لیتے ہیں۔ اس پر ادھارئیے سردار نے کہا کہ بار بار مانگنے سے کبھی نہ کبھی تو کچھ د ے گا۔ نہ دے گا تو شرمندہ تو ہو گا۔ شرمندہ کرنے کے لئے بھی ہم یہ کارِخیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بات کہاں نکل گئی۔ 
قیدی اپنا امیدوار لانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ جیلوں میں سیاست دان ، سابق بیوروکریٹ کاروباری چور ڈاکو ہر قسم کے قیدی موجود رہتے ہیں۔ یہ اپنا نمائندہ منتخب کر کے بھیج سکتے ہیں۔ اپنے لئے مخصوصی نشستوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن