آٹھ فروری کے شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اٹھتے سوالات

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آٹھ فروری 2024ء کے اعلان کردہ پتھر پر لکیر انتخابات تو شیڈول کے مطابق منعقد ہو گئے مگر ان انتخابات کے ابھی تک مکمل نہ ہونے والے حتمی نتائج اور اب تک سامنے آنیوالے نتائج سے ملک میں سیاسی استحکام کی فضا استوار ہونے کے بجائے مزید عدم استحکام‘ افراتفری اور سیاسی انتشار کے امکانات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے قومی اسمبلی میں واحد بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے کے دعوے کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ حکومت سازی کیلئے یا تو مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ جمعیت علماء اسلام اور دوسری چند نشستیں حاصل کرنیوالی ہم خیال جماعتوں کو پھر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا جبکہ فی الحال یہ تمام جماعتیں مل کر بھی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتیں چنانچہ انہیں حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کی مجبوری لاحق ہوگی۔ اس کیلئے ہارس ٹریڈنگ کے بازار میں کتنا بھائوتائو ہوگا‘ اس کا تصور کیا جائے تو یہ سسٹم کی ناکامی کی ہی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ 
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ نظریاتی وابستگی کا بے تحاشہ پراپیگنڈہ کرکے سیاسی محاذآرائی جس انتہاء کو پہنچا دی گئی ہے، اسکے پیش نظر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالا کوئی آزاد رکن اسمبلی شاید ہی اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرکے کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا متحمل ہو سکے جبکہ ان آزاد ارکان کیلئے خود کو پی ٹی آئی کا رکن ظاہر کرنا بھی قانونی طور پر ممکن نہیں کیونکہ پی ٹی آئی بطور جماعت انتخابی عمل میں شامل ہی نہیں تھی جس کے بارے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے کہ کوئی آزاد رکن پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔ 
اس صورتحال میں اگر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان کسی دوسری پارلیمانی پارٹی کا حصہ بھی نہیں بنتے تو اسمبلی کے فلور پر بہت بڑا خلاء اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے اور اگر کسی بھی پارلیمانی پارٹی کالیڈر حکومت تشکیل دینے میں ناکام ہو گیا تو آئین کے تقاضے کے تحت قومی اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کرانا پڑیں گے۔ محاذآرائی اور منافرت کی موجودہ فضا میں کیا ملک دوبارہ انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ جبکہ قومی خزانے پر بھی اس صورت میں نیا بوجھ پڑے گا جس سے قومی معیشت کی حالت مزید دگرگوں ہو گی۔ اسکے برعکس صوبائی اسمبلیوں کی پوزیشن حکومت سازی کے معاملہ میں مستحکم نظر آتی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی تنہاء حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور بعض آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر حکومت تشکیل دینے کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی یہ جماعتیں قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا سکتی ہیں جبکہ سرحد اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان قطعی اکثریت حاصل کر چکے ہیں جو ہائوس میں آزاد حیثیت میں بیٹھیں گے تو آزاد گروپ تشکیل دیکر اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کرنے کی پوزیشن میں ہونگے جبکہ قومی اسمبلی میں انکی پوزیشن اس سے مختلف ہے جہاں انہیں حکومت سازی کیلئے سادہ اکثریت حاصل نہیں۔
یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں کہ 8 فروری کے انتخابات کیلئے پولنگ تو مثالی آزادانہ اور شفاف فضا میں ہوئی اور اس بار اسی آزاد فضا کے باعث ٹرن آئوٹ بھی مثالی رہا جبکہ پاک فوج‘ پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں نے پولنگ سٹیشنوں کے باہر امن و امان بھی یقینی بنائے رکھا جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں اور آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس کے مطابق عساکر پاکستان کی جانب سے اپنی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی پر اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ مگر الیکشن کمیشن کی بے تدبیریوں‘ ناقص حکمت عملی اور عدم فعالیت کے باعث آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے سارے ممکنہ ثمرات دھرے کے دھرے رہ گئے اور انٹرنیٹ سروس رات گئے تک بند رکھنے اور ای وی ایم سسٹم کو بروئے کار لانے کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے بروقت انتخابی نتائج مرتب نہ کر پانے کے باعث انتخابات کی شفافیت پر حرف آیا اور بالخصوص پی ٹی آئی کو پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کے عمل میں دھاندلی کے الزامات عائد کرنے کا موقع ملا۔ 
چونکہ چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے خود یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ای وی ایم کے تحت انتخابی نتائج مرتب ہونے کے باعث تمام قومی اورصوبائی حلقوں کے نتائج کا آٹھ فروری کی رات ایک بجے تک اعلان کر دیا جائیگا جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ حتمی انتخابی نتائج 9 فروری کی رات تک بھی مرتب نہیں ہو پائے تھے جس کے باعث الیکشن کمیشن پر نتائج تبدیل کرنے کے الزمات بھی لگتے رہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج میں تاخیر کا جواز انٹرنیٹ سروس معطل ہونے کا ظاہر کیا جاتا رہا اور اس کا ملبہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) پر ڈالا جاتا رہا جبکہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ انٹرنیٹ سروس بند کرنے سے ہی پولنگ اور گنتی کے دوران امن و امان کی صورتحال قابو میں رکھی جا سکی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال پیدا ہونا بھی فطری امر ہے کہ اگر امن و امان کی خاطر انٹرنیٹ سروس بند رکھنے کی حکمت عملی طے کی گئی تھی تو پھر ای وی ایم کے ذریعے الیکٹرانک انتخابی عمل کا راستہ کیوں اختیار کیا گیا جس پر کثیر اخراجات بھی ہوئے۔ 
اسی تناظر میں یہ شکوک و شبہات بھی پیدا ہوئے کہ جس طرح 2018ء کے انتخابات میں آر ٹی ایس کو بٹھا کر مرضی کے نتائج حاصل کئے گئے۔ کہیں اب یہ مقصد ای وی ایم کے ذریعے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی تو نہیں کی گئی۔ چنانچہ 8 فروری کو پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اجراء تعطل کا شکار ہوا تو لوگوں کو انتخابی عمل پر ماضی جیسے اعتراضات اٹھانے کا موقع بھی مل گیا جس میں بظاہر الیکشن کمیشن پر ہی انگلیاں اٹھتی نظر آتی ہیں اور بعض قانونی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے الیکشن کمیشن کے معاملات کا ازخود نوٹس لینے کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے۔ 
آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام کی جو فضا استوار ہوتی نظر آرہی ہے‘ وہ ملک کی سلامتی اور سسٹم کی بقائے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے اس لئے سیاسی قیادتوں سمیت تمام متعلقین کے باہم سر جوڑ کر بیٹھنے اور منتخب ہونیوالی اسمبلی کو مستحکم بنانے کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بعد میں سوائے پچھتاوے کے‘ کسی کے ہاتھ پلے کچھ نہیں آئیگا۔

ای پیپر دی نیشن