محسن نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔ چند روز تو وہ دو عہدوں پر ذمہ داریاں نبھائیں گے ان دنوں وہ ملک کے سب سے صوبے پنجاب کے نگراں وزیر اعلٰی بھی ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے بلامقابلہ منتخب ہونے والے چیئرمین بھی ہیں۔ کرکٹ کے حلقوں میں ان کی آمد کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔ چونکہ بائیس دسمبر دو ہزار بائیس سے محسن نقوی کے منتخب ہونے تک ملکی کرکٹ شدید عدم استحکام کا شکار تھی، پہلے نجم سیٹھی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بنے، وہ گئے پھر فاروق شہزاد رانا قائم مقام چیئرمین بنے پھر چوہدری ذکا اشرف مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بنے پھر انہیں بھی مستعفی ہونا پڑا اس کے شاہ خاور قائم مقام چیئرمین کے عہدے پر آئے اور ان سب کے بعد اب محسن نقوی نئے چیئرمین کی حیثیت سے اننگز کا آغاز کر چکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کو کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے، انتظامی مسائل بھی ہیں، کھیل کے فروغ کے مسائل بھی ہیں، کھلاڑیوں کی کمی کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستان نے دو ہزار پچیس میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی یے۔ اس کے لیے سٹیڈیمز کی حالت کو بہتر بنانا، سیکیورٹی کے حوالے سے رکن ممالک کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہنا اور ایسے انتظامات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اگر پاکستان میں سٹیڈیمز پر کسی بھی حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے تو ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان انیس سو چھیانوے کے عالمی کپ کی میزبانی کے بعد آج تک آئی سی سی کے کسی ایونٹ کی میزبانی نہیں کر سکا۔ ان حالات میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان اس ایونٹ کے کامیاب انعقاد سے ہمیں اپنی ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا، یہ ایونٹ ہماری معیشت کو سہارا دے سکتا ہے، ہزاروں غیر ملکیوں کو پاکستان سفر کرنے اور یہاں وقت گذارنے کا موقع ملے گا، پاکستان دنیا کی نظروں میں رہے گا، ہمارے سٹیڈیمز طویل عرصے بعد آئی سی سی کے کسی ایونٹ کی میزبانی کریں گے۔ اس ٹورنامنٹ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے نئے چیئرمین محسن نقوی کے لیے سب سے بڑا ہدف مختصر وقت میں سٹیڈیمز کے معیار کو بلند کرنا، انہںں شائقین کے لیے پرکشش بنانا اور سٹیڈیم تک آنے والوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے اندرونی مسائل ہیں، کھلاڑیوں مخں اختلافات زبان زد عام ہیں، مصدقہ ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ اہم کھلاڑیوں کے مابین سب اچھا نہیں ہے، کپتانی کے مسائل ہیں، کھلاڑیوں کے فٹنس ایشوز ہیں، میڈیکل پینل کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے، ٹیم کے ٹرینر کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے، لیگ کرکٹ میں قومی کرکٹرز کی بڑھتی ہوئی دلچسپیاں کرکٹ بورڈ کے لیے درد سر ہیں، پی سی بی میں عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کھلاڑیوں نے معاوضوں کے حوالے اپنے کئی مطالبات بھی منوائے لیکن اس کے باوجود سال میں دو ٹونٹی ٹونٹی لیگز کے حوالے سے مختلف رائے رہتی ہے۔ پاکستان ٹیم کے لیے مستقل کوچنگ سٹاف کی تقرری بھی اہم مسئلہ ہے، کیا محسن نقوی مقامی کوچز پر اعتماد کرتے ہیں یا پھر ایک مرتبہ پھر غیر ملکی کوچز پر انحصار کیا جائے گا، سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی کہتے ہیں کہ "ایک سیریز کسی کی صلاحیتوں جانچنے کے لیے مناسب وقت نہیں ہے محمد حفیظ کو کم از کم ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ تک موقع ضرور ملنا چاہیے، محسن نقوی کے چیئرمین بننے کے بعد وہاب ریاض کا کردار اہم ہو گیا ہے، فاسٹ باؤلر پنجاب کی نگراں حکومت میں بھی محسن نقوی کے ساتھ کام کر چکے ہیں وہ پی سی بی کے چیف سلیکٹر بھی ہیں، بورڈ کے نئے چیئرمین یقینا اہم فیصلوں میں ان کی رائے کو اہمیت دیں گے دیکھنا یہ ہے کہ وہاب ریاض کیا مشورے دیتے ہیں۔ کیا وہ ان لوگوں کے ساتھ کام کریں گے جن کے غلط فیصلوں پر وہ خود بھی بات کرتے رہے ہیں۔"
محسن نقوی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد بورڈ کے اخراجات کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ ان اخراجات میں پاکستان کرکٹ ٹیم، سپورٹ سٹاف اور میچز کے انعقاد پر ہونے والے اخراجات بھی شامل ہیں۔ چیف آپریٹنگ آفیسر اور چیف فنانشل آفیسر کو ان اخراجات کی رپورٹ تیار کر کے بریفنگ کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پی سی بی کے سالانہ بجٹ اور کھلاڑیوں کے معاوضوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔نئے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی اخراجات اور پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا موازنہ چاہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ محسن نقوی آنے والے دنوں میں بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں سے بریفنگ کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ انہوں نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے کمروں کا دورہ بھی کیا ہے۔ سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ "این سی اے کے کمروں کا دورہ اچھی بات ہے لیکن انہیں اپنے دفتر کے اردگرد دفاتر کا دورہ بھی کرنا چاہیے وہاں کون لوگ بیٹھے ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے، محسن نقوی کے لیے سب سے بڑا ہدف میرٹ پر فیصلے ہیں۔ سفارشی کلچر کا خاتمہ ہے، جب تک وہ ماہر اور قابل افراد کو سامنے نہیں لائیں گے اس وقت تک بہتری مشکل ہے۔"
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین محسن نقوی
نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی رہائش کے معائنے اور اپ گریڈیشن سمیت جاری ترقیاتی منصوبوں پر بریفنگ دی جا چکی ہے۔ وہ قذافی سٹیڈیم میں سہولیات اور ڈریسنگ رومز کا جائزہ لے چکے ہیں۔ نے نیسپاک، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پنجاب کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ چند دنوں میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی اور قذافی اسٹیڈیم کی از سر نو تعمیر کے لیے روڈ میپ پیش کریں۔
نئے چیئرمین کے لیے سب سے پہلا ہدف پاکستان سپر لیگ کے نویں ایڈیشن کا انعقاد ہے، پی ایس ایل کی تیاریاں اچھے انداز میں نہیں ہو سکیں آج دس فروری ہے اور ملک میں کہیں بھی اس حوالے سے کوئی کام نظر نہیں آتا دیکھنا یہ ہے کہ اس دوران وہ کیا فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان انڈر 19 ورلڈکپ کا سیمی فائنل ہار گئی ہے۔ آسٹریلیا نے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو ایک وکٹ سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی ہے جہاں اس کا مقابلہ بھارت سے ہونا ہے۔ پاکستان ٹیم نے عالمی کپ میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ بالخصوص فاسٹ باؤلرز نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے فاسٹ باؤلرز ہے خلاف ہمارے بلے باز بہت زیادہ اعتماد کے ساتھ نہیں کھیل پائے۔ اچھال والی گیندوں پر انہیں مسائل کا سامنا رہا، یہی مشکل سینئر کرکٹرز کو بھی ہے۔ محمد یوسف عظیم بلے باز رہے ہیں وہ یقینا اس حوالے سے بہتر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنید خان فاسٹ باؤلنگ کوچ ہیں وہ بھی ایک کامیاب باولر رہے ہیں نوجوان فاسٹ باؤلرز کو ان کی موجودگی کا فائدہ ہوا ہے۔ اس ٹیم کے باصلاحیت کرکٹرز کو مسابقت اور مقابلے سے بھرپور کرکٹ کھلانے کے لیے اقدامات کرنا بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ محسن نقوی نئے چیئرمین ہیں لیکن ہمارے مسائل پرانے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہ مسائل حل کرتے ہیں یا کسی آنے والے کے لیے چھوڑ کر جاتے ہیں۔