اسلام آباد (عترت جعفری) قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے بیشتر انتخابی حلقوں کے نتائج سامنے آنے کے بعد اسلام آباد اور صوبوں میں حکومت سازی کا مشکل مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں تو کسی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہو سکی، سندھ اسمبلی میں پی پی پی کو سادہ اکثریت مل گئی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور آزاد ارکان کی تعداد کم و بیش ایک جیسی ہے۔ ملک کا پورا سیاسی منظر نامہ وفاق اور تین صوبوں میں مخلوط حکومتوں کی ممکنہ تشکیل کی جانب اشارہ کر رہا ہے، انتخابی مہم کی تلخیوں سے قطع نظر سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے لئے گنجائش نکالنا ہو گی، ایسے شواہد ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے پس منظر میں روابط کا آغاز کر دیا ہے، اسلام آباد میں حکومت کی تشکیل کے لیے اس وقت کسی سیاسی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہے، قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے 133 ووٹوں کی ضرورت پڑے گی، پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کسی کے پاس 133 ووٹ نہیں ہیں، مسلم لیگ (ن)، پی پی اور متحدہ ملکر وفاق میں سادہ اکثریت حاصل کر سکتی ہیں۔ نواز شریف جب ووٹ ڈالنے کے لیے لاہور میں پولنگ سٹیشن پر آئے تھے تو انہوں نے میڈیا کے ساتھ بات چیت میں یہ کہا تھا کہ سادہ اکثریت ملنی چاہیے اور قفمخلو ط حکومت کی بات نہ کریں، مگر جمعہ کو انہوں نے اپنی تقریر میں ازاد امیدواروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کو مل کر حکومت بنانے کی دعوت دی، آصف علی زرداری گزشتہ شب لاہور اسلام آباد آئے تھے جس کے بعد وہ لاہور چلے گئے جبکہ بلاول بھٹو زرداری بھی لاہور میں موجود ہیں، لاہور میں پیپلز پارٹی کی قیادت جمع ہوگی جس میں ائندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا، انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ نون کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے حوالے سے امکان کو مسترد کیا تھا، مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی باضابطہ مذاکارت کی ٹیبل پر بیٹھنے سے قبل اپنی پوزیشن کو بہتر کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں جس کے لئے آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی میں لانے کی کوشش کی جائے گی، اب تک کی نمبر گیم پرنظرڈالی جائے تو سابق پی ڈی ایم حکومت میں شامل جماعتں، اگر ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو وہ وفاق اور چاروں صوبوں میں حکومت سازی آسانی سے کر سکتی ہیں، جس کے بعد آزاد امیدواروں کے لیے ایک آسان آپشن ہوگا کہ وہ کسی بھی جماعت میں شامل ہو جائیں، قومی اسمبلی میں اس وقت ازاد ارکان کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ان میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب ارکان شامل ہیں، اگر یہ ارکان متحد رہیں تو وہ اسلام اباد میں حکومت بنانے کے ہدف کی قریب تاہم انہیں بہت ساری قانونی پیچیدگیوں کا سامنا بھی ہے، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی بڑی سٹیک ہولڈرز ہیں، وزارت عظمی کے منصب پر اتفاق رائے حاصل کرنا بہت بڑا ایشو ہوگا، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں اس منصب کے لیے امیدوار ہیں، دوسرا ہم ایشو صدر پر منصب کے لیے مشترکہ امیدوار کا چناؤ ہو گا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آتے ہی صدر مملکت کے منصب کے لئے الیکشن کرانا ہوگا، اس سے قبل سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کا انتخاب بھی ہونا ہے، سیاسی لین دین کرنا پڑے گا۔
مسلم لیگ ن، پی پی، متحدہ ملکر وفاق میں سادہ اکثریت حاصل کر سکتی ہیں
Feb 10, 2024