بیسویں صدی کی چوتھی دَہائی میں قائداعظم مہاتما گاندھی مذاکرات کی ناکامی کے اسباب کا تجزیہ کرتے وقت جناب جسونت سنگھ نے مہاتما گاندھی کے عقیدت مند پیروکار اور سوانح نگار پیارے لال کی کتاب میں شامل مہاتما گاندھی کے بیانات پر انحصار کیاہے۔ بمبئی کی 10۔مائونٹ پلیزنٹ روڈ پر واقع قائداعظم کی رہائش گاہ پر 9ستمبر 1944ء کو شروع ہونے اور اٹھارہ دِن تک جاری رہنے والے اِن مذاکرات کی ناکامی کا سبب ہر دو لیڈروں کی اپنے اپنے سیاسی مؤقف پر ثابت قدمی ہے۔ پیارے لال کی ڈائری بعنوان The Final Phase کے تمامتر مندرجات صرف مہاتما گاندھی کے بیانات پرمشتمل ہیں۔مہاتماگاندھی نے اپنے ذہن میں جس تصوّر کو راسخ کرکے مذاکرات کی اِس کہانی (9ستمبر1944 27ستمبر1944ئ)کا آغاز کیا تھااُسے خود انہوں نے درج ذیل الفاظ میںبیان کرنا مناسب سمجھا ہے:
\\\"I am to prove from his own mouth that the whole of the Pakistan proposition is absurd.\\\" (P.317)
کتاب کے مترجمین نے اوپر دیئے گئے جملے کا ترجمہ یوں کیا ہے: ’’پاکستان کی یہ ساری تجویزہی بکواس ہے‘‘ (صفحہ234)۔ یہاں اِس بات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِن مذاکرات پر ہندو مہاسبھا نے شدید غیض و غضب کا اظہار کیا تھا۔یہ نادان اِس حقیقت سے بے خبر تھے کہ تصورِ پاکستان کی حد تک ہندو مہاسبھا اور مہاتما گاندھی کا موقف ایک تھا ۔ہندو مہاسبھا اسلامیانِ ہند کی خودمختاری کی ہر تجویز پر غیض و غضب کے اظہار کی خوگر تھی جبکہ مہاتماگاندھی اپنی عیّار عقل کے گھوڑے دوڑا کر تصورِ پاکستان کو ’’بکواس ‘‘ثابت کرنے میں مصروف تھے۔چنانچہ مذاکرات کے دوران مہاتما گاندھی مُصِر رہے کہ پہلے کانگرس اور مُسلم لیگ کی مشترکہ حکمتِ عملی سے برصغیر آزاد کرایا جائے اور پھر آزاد برصغیر میں ہندو مسلم بھائی بھائی بن کر علاقائی تقسیم کا مسئلہ حل کریں۔اِسکے برعکس قائداعظم کا مؤقف یہ تھا کہ پہلے مسلمانوں کے قومی حقِ خود ارادیت کا اثبات کیا جائے اور پھر برطانوی سامراج کو برصغیر سے نکال باہر کرنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ ہر دو رہنما از اوّل تا آخر اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہے اور یوں یہ مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے۔مذاکرات کے دوران جب مہاتما گاندھی نے تصوّرِ پاکستان کیخلاف اپنے استدلال میں لفظ ’’پاکستان‘‘ کی قراردادِ لاہور میںعدم موجودگی کی دلیل پیش کی تو قائداعظم نے وضاحت فرمائی:
\\\"\\\'The word has now become synonymous with the Lahore resolution.... We maintain and hold that Muslims and Hindus are two major nations by any definition or test of a nation.\\\' Muslims were a separate nation by virtue of thier \\\'distinctive culture and civilisation, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and tradition\\\', and, therefore, they were entitled to a separate, soverign existence in a homeland of their own.\\\"(P.319)
مہاتما گاندھی کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اِس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب بات چیت کے آغاز میں قائداعظم نے گفتگو کا آغاز سن چالیس کی قراردادِ پاکستان پر بحث سے کرنا چاہا تو مہاتماجی نے فرمایا کہ میں تو اِس قرارداد سے ناواقف ہوں۔ میں نے تو یہ قرارداد ابھی تک پڑھی ہی نہیں۔اِن طول طویل مذاکرات کے دوران مہاتماگاندھی کے استدلال سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ انہوں نے نہ صرف قراردادِ پاکستان پڑھ رکھی تھی بلکہ اِس پر خوب غور و فکر بھی کر رکھا تھا۔اِس کا سب سے بڑا ثبوت جداگانہ مسلمان قومیت کے حق میں قائداعظم کے استدلال کو انہوں نے یہ کہہ کر رَد کر دیا تھا کہ برطانوی ہند دو یا دو سے زیادہ قوموں کا مسکن نہیں بلکہ مختلف الخیال اور مختلف الالوان افراد پر مشتمل ایک ہی خاندان کا وطن ہے۔اکھنڈ بھارت کے اِس تصورِ کو رَد کرتے ہوئے قائداعظم نے پُرزور اصرار کیا تھا کہ مہاتما گاندھی کو چاہیے کہ وہ پہلے جداگانہ مسلمان قومیت پر مبنی دو قومی نظریے کو دل سے تسلیم کریں اور پھر اپنی بات کو آگے بڑھائیں:
\\\"Jinnah insisted that Gandhi should accept the \\\'basis and fundamental principles\\\' adumberated in the Lahore resolution. Gandhi pleaded with him that it was not unnecessary since he had accepted \\\'the concrete consequence\\\' that would follow from such acceptance in as far as it was reasonable and practicable? \\\'I cannot accept the Lahore resolution as you want me to, especially when you seek to introduce into its interpretation theories and claims which I cannot accept and which I cannot ever hope to induce India to accept\\\'. \\\'Can we not agree,\\\' Gandhi finally pleaded, \\\'to differ on the question of \\\'two-nations\\\' and yet solve the problem on the basis of self-dertermination?\\\'\\\" (P.320)
اِن دو عظیم شخصیات کے مابین درج بالا مکالمات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ مہاتماگاندھی برطانوی ہند میںدو یا دو سے زیادہ قوموں کے وجود سے انکاری ہیں۔انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی وہ قائداعظم کو نظریاتی خودمختاری کی بجائے علاقائی خود مختاری پر اتفاق کر لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دو قومی نظریہ کو وہ کسی بھی صورت میں قبول کرنے پر تیار نہیں۔قائداعظم کو وہ فقط صرف اتنی سی پیش کش کرنے پر تیار ہو پاتے ہیں کہ اگر وہ دو قومی نظریے سے دستبردار ہو جائیں تو اُنھیں مخلوط انتخابات کے ذریعے علاقائی خود ارادیت کا حق دیا جا سکتا ہے۔
اِن مذاکرات کی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ مہاتما گاندھی پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو مٹانے کو کارِ ثواب سمجھتے ہیں جبکہ قائداعظم پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے استحکام میں کوشاں ہیں۔ پاکستان کے نظریاتی وجود کو مٹا ڈالنے کی یہ حکمتِ عملی قیامِ پاکستان کے بعد بھی جاری رہی۔قیامِ پاکستان کے بعد دو قومی نظریے کو فراموش کر دینے کے حق میں مہاتما گاندھی کی دلیل یہ ہے کہ یہ نظریہ تو پاکستان کے قیام کی خاطر وضع کیا گیا تھا اب چونکہ پاکستان کا تصوّریعنی دو قومی نظریہ ایک ٹھوس جغرافیائی حقیقت بن چکا ہے اِس لیے دو قومی نظریہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔اِس باب میں قائداعظم کے طرزِ فکر و عمل کو سمجھنے کیلئے چودھری خلیق الزمان کی کتاب \\\"Pathway to Pakistan\\\" کے آخری صفحات کا مطالعہ مفید ثابت ہو سکتاہے۔ 390 سے لے کر 400صفحات تک حسین شہید سہروردی اور چودھری خلیق الزمان پر گاندھی کے زیرِ اثر دو قومی نظریے کی تباہ کاریاں آشکار دکھائی گئی ہیں۔ہر دو زعما قیامِ پاکستان کے بعد مہاتماگاندھی کی دستخط شدہ ایک دستاویزلیکر قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور مہاتما جی کا یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ اگراِس دستاویز پرمیرے دستخطوں کیساتھ قائداعظم کے دستخط بھی ثبت ہو جائیں تو اِس کی اشاعت سے پاکستان اور بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات ختم ہو جائیں گے۔ قائداعظم ایسا کرنے سے انکار کر کے ایک بار پھردوقومی نظریہ کی ابدی صداقت پر اپنے ایمانِ محکم کا اظہار کرتے ہیں۔بانیٔ پاکستان بابائے قوم کے نزدیک دو قومی نظریہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی زندہ ہے اور اِس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
قائداعظم کی نظریاتی استقامت اور صلابتِ فکر اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ مہاتماگاندھی اپنے دمِ واپسیں تک دو قومی نظریے سے کیوں خائف رہے؟ فقط اِس لیے کہ دو قومی نظریہ فی الحقیقت برطانوی ہند میں آباد کئی قوموں کے حقِ خود ارادیت کا نظریہ ہے۔ جب تک یہ نظریہ زندہ ہے موجودہ بھارت کی حدود میں آباد کوئی بھی قوم اِسی نظریے کی بُنیاد پر اپنے لیے الگ وطن کے حصول کی تمنّا کو تحریک کی اور تحریک کو اپنے آزاد اور خودمختار وطن کے قیام کی بنیاد بنا سکتی ہے۔فقط چار پانچ سال پیشتر بھارت کے اچھوتوں نے بھارت کے یومِ جمہوریہ(2005ئ) پر شہر میرٹھ کے سب سے بڑے پارک میں پاکستان کا قومی پرچم اور پاکستان زندہ باد کے پوسٹر لہرا کر اچھوت قوم کیلئے قائداعظم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک جداگانہ مملکت کے قیام کا مطالبہ کر دیا تھا۔ یہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے کہ آندھرا پردیش میں آزاد اور خودمختار تلنگانہ ریاست کے قیام کی تحریک کی پہلی منزل سر کر لی گئی ہے۔مغربی بنگال میں گورکھا لینڈ کے قیام کی تحریک نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا ہے۔’’ انڈیا آفٹر گاندھی ‘‘کے مصنف، نامور مؤرخ رام چندر گوہانے ابھی چند روز پیشتر دعویٰ کیا ہے کہ:
\\\"We are an evolving nation, we are 60 years young. We are yet to find the correct political forms to cope with our growing population.\\\"(Daily Times, 18-12-2009)
مہاتما گاندھی سے لیکر جسونت سنگھ تک بھارت کی سامراجی وحدت کے ثناخواں سیاسی مدبر، تصوّرِ پاکستان (دو قومی نظریہ: برطانوی ہندایک ملک نہیں ، ایک برعظیم ہے جس میں ایک نہیں ، کئی قومیں آباد ہیں) سے ترساں و لرزاں چلے آ رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے دوران انھوں نے قیامِ پاکستان کی ہر ممکن حد تک مخالفت کی اور بعدازاں قیامِ پاکستان کے بعدپاکستانی قوم کے دل و دماغ سے تصوّر ِ پاکستان کو محو کر ڈالنے کی ہر تدبیر آزمائی۔جسونت سنگھ کی زیرِ نظر کتاب بھی تصورِ پاکستان کو جھٹلانے کی ایک کوشش ہے۔
یہ لوگ خوب جانتے ہیں کہ تصورِ پاکستان کو دھندلاتے دھندلاتے بالآخر مٹا ڈالنے کے بعد پاکستان کا جغرافیائی وجود بھی رفتہ رفتہ منتشر ہو کر رہ جائے گا۔ ہمیں بھی جان لینا چاہیے کہ ہماری قومی بقا اور ہمارا قومی ارتقاء پاکستان کے تصور اور پاکستان کی حقیقت کی یکدلی ، حرف و معنی کی یکجائی پر منحصر ہے۔