گورنر ہاﺅس کے پاس الحمرا میں ایک تقریب تھی میں نوائے وقت سے وہاں جا رہا تھا کہ مال روڈ کی مرکزی سڑک پر ٹریفک بلاک تھی۔ شاید صدر زرداری، سلمان تاثیر کی تعزیت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اس قدر افراتفری، ہڑبونگ اور نفسانفسی کا عالم تھا کہ بلا کی سردی میں گرما گرمی تھی مگر گرمی نہیں تھی۔ کوئی کسے بتائے کہ الحمرا میں سید عقیل الغروی ایک بیش بہا لیکچر دے رہے تھے۔ موضوع بہت اہم تھا۔ ”اکیسویں صدی میں روحانیت کا مسئلہ“۔ آج دنیا داری کی دلدل کے باعث روحانی دنیا کی سیر بھی نہیں کر سکتے!۔ من مانیوں حکمرانیوں اور جولانیوں میں کسی کو پروا نہ تھی کہ اس ملک میں صرف حکام ہی نہیں بستے۔ محکوم بھی ہیں جنہیں مظلوم بنایا جا رہا ہے۔ شبہ طراز اور ضیغم صاحب کے فون پر فون آ رہے تھے۔ کراچی سے نامور افسانہ نگار عذرا اصغر بھی پروگرام کے اہتمام اور انصرام کے لئے کراچی سے آئی تھیں۔ سب لوگوں کو سلمان تاثیر کے قتل پر افسوس ہے مگر ان کی کسی تک رسائی نہ تھی کہ وہ تعزیت ہی کر سکیں۔ اس سانحے کو بھی سیاستدانوں اور مفاد پرست لوگوں نے مسائل میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے مسئلہ بنا دیا تھا۔ پریشان لوگ مزید پریشان تھے۔ ٹریفک میں پھنسے ہوئے لوگوں کی پریشانی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ٹریفک میں الجھے ہوئے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر ٹریفک پولیس اور شاہی پولیس والے مسکرا رہے تھے۔ لفظ شاہی پولیس پر غور کریں جمہوریت میں بھی حکمرانوں کے لئے یہی پولیس کام کرتی ہے۔ انہیں عام لوگوں کو مصیبت میں ڈال کر مزہ آتا ہے۔ یہ حشر وزیراعظم اور وزیراعلی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ وزیراعظم گیلانی ہر ہفتے لاہور آ جاتے ہیں وہ عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ کوئی حکمران کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا۔ وہ اتنا تو کریں کہ ہفتہ وار کی بجائے ایک مہینے بعد لاہور آیا کریں۔ اپنے حساب کتاب کی فکر ہو اور نقصان کا ڈر ہو تو گھر والوں کو اسلام آباد بلا لیا کریں۔ شاید صدر زرداری کو خبر بھی نہ ہو کہ وہ تو گورنر ہاﺅس کے آسودہ ماحول میں افسردہ بیٹھے سلمان تاثیر کے بیوی بچوں سے تعزیت کر رہے ہوں گے اور لوگ ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ذلیل و خوار ہو رہے تھے بری طرح ٹریفک بلاک میں ایمبولینس بھی تھی۔ 1122 والوں کو تجربہ ہو گیا ہے وہ کسی نہ کسی طرح اپنے مریض کو نکال لے جاتے ہیں مگر آج وہ بھی بے بس تھے۔ 1122 والے آمریت کی باقیات میں سے ہیں۔ ان کا کام خدمت کرنا ہے مگر سیاست اور حکومت نے خدمت کے معاملات کو بھی سیاسی اور متنازعہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ انتظامی ادارے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکام نے بھی تو عوام کا جینا تنگ کر رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو مزید تنگ کرنے سے حکام ہم سے خوش ہوں گے۔ جاہل اور عالم لوگوں نے ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کا محاورہ نہیں سنا ہوا؟ ابھی وی وی آئی پی کا طیارہ بھی ائرپورٹ پر نہیں اترا ہوتا کہ ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ اس ٹریفک میں کسی نے ائرپورٹ پہنچنا ہو تو بے شک اس کی فلائٹ نکل جائے۔ کوئی دفتر سے لیٹ ہو جائے۔ کوئی ایمبولینس میں مر جائے۔ انہیں کوئی احساس ہی نہیں۔ ٹریفک بلاک کرنے والے پولیس کے لوگ ہوتے ہیں اور وہ بھی پولیس والا تھا جس نے سلمان تاثیر کو قتل کر دیا جب کہ اس کی ڈیوٹی اسے قتل سے بچانا تھا۔ اس کے بعد سکیورٹی کی افادیت ہی ختم ہو گئی ہے۔ گورنر ہاﺅس کے دروازے پر رکاوٹیں اور گھنٹوں رکی ہوئی ٹریفک بھی موت کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار دولت اور مضبوط حکومت بھی آدمی کو بچا نہیں سکتی۔ حکومت اور دولت کو عوام کی بھلائی کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب تک صدر زرداری گورنر ہاﺅس میں موجود رہے ٹریفک رکی رہی۔ متبادل راستوں کی تلاش میں لوگ مزید ذلیل و خوار ہوتے رہے۔ ٹریفک والے کوئی متبادل انتظام نہیں کرتے، ان کا کام ٹریفک کو روکنا ہے۔ ٹریفک کو چلانا نہیں ہے ٹریفک بے حال ہو ہو کے خود بخود بحال ہو جاتی ہے۔ اس میں ٹریفک والوں کا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ سکیورٹی کے نام پر لوگوں کو خوار کیا جا رہا ہے۔ کچھ سوچیں کہ ساری تدبیریں فیل ہوتی جا رہی ہیں اور وہ تدبیر کرنا جانتے ہی نہیں۔ وہ صرف تکبر کرتے ہیں۔ یعنی حکومت کرتے ہیں اور انہیں حکومت کرنا بھی نہیں آتا۔ سنا ہے کہ پولیس والوں کے لئے تحقیقات ہو رہی ہیں کہ کون مناسب ہے اور کون وفادار ہے۔ اب اور مصیبت شروع ہونے والی ہے۔ داڑھی والوں کی ہر کہیں شامت آئی ہوئی ہے۔ اس اصول کے تحت بھی زیادتیاں ہوں گی۔ سکیورٹی کرنے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حکام کو قومی سکیورٹی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس کے لئے بات کہیں بھی نہیں رکے گی جن کو دوست وفادار سمجھا جا رہا ہے۔ ان میں بھی دشمن ہو سکتے ہیں۔ گھر والوں پر بھی اعتبار کرنا بے معنی ہے۔ آدمی کو خود پر اعتبار نہ ہو تو وہ خود بھی ناقابل اعتبار ہے۔ حکومت اور دولت کے لئے بھائیوں، بہنوں، بیٹیوں، بیٹوں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں صرف پولیس والوں پر نہیں۔ یاروں، وفاداروں اور گھر والوں پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کے لئے جو بات مشکل ہوتی ہے وہ دوستوں اور گھر والوں کے لئے آسان ہوتی ہے۔ دل والے پریشان ہیں کہ ایسا کوئی سانحہ دوستوں کے حلقے میں گھر والوں کے درمیان نہ ہو جائے۔ دوستوں اور گھر والوں کی سکریننگ کی بھی ضرورت ہے۔ ٹریفک میں ذلیل و خوار ہونے والوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ خطرہ تو ان سے ہے جو اردگرد ہیں اور آس پاس ہیں۔ ساتھ چلنے والوں اور پیچھے چلنے والوں کو کون چیک کرے گا۔ خطرہ عوام سے نہیں خواص سے ہے۔!