میمو میں میرا کوئی کردار نہیں: سابق پاکستانی سفیر‘ منصور اعجاز کو ویزا دیا جائے‘ فوج‘ پولیس سیکورٹی دیں: عدالتی کمشن

اسلام آباد (وقائع نگار + نوائے وقت نیوز) میمورنڈم سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمشن نے منصور اعجاز کو پاکستان میں فوج اور پولیس کی سکیورٹی فراہم کرنے کے ساتھ اسے فوری طور پر ملٹی پل ویزا جاری کرنے کا حکم دیا ہے، کمشن نے سابق سفیر حسین حقانی، منصور اعجاز اور وفاق پاکستان کو میمورنڈم کیس میں اپنے گواہوں کی فہرستیں دو روز میں کمشن کے سامنے پیش کرنے جبکہ منصور اعجاز کے خلاف مقدمات کے اندراج کے حوالے سے دائر درخواستوں کا معاملہ سپریم کورٹ کو ریفر کر دیا ہے۔ عدالتی کمشن نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ کینیڈین حکومت کے ذریعے نجی موبائل فرم ”رم“ سے منصور اعجاز و حسین حقانی کے بیانات اور فون کالز کا ریکاڈ طلب کریں۔ کمشن نے منصور اعجاز کو 16 جنوری کو بیان ریکارڈ کرانے جبکہ حسین حقانی کو اپنے استعفیٰ کا نوٹیفکیشن، فنانشل ٹائمز کے مضامین اور اپنے گواہوں کی فہرستیں جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی۔ نوازشریف کا بیان مصطفی رمدے کے ذریعے داخل کرایا گیا۔ کارروائی شروع ہوئی تو کمرہ عدالت میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف، مہتاب عباسی، سید غوث علی شاہ، نصیر احمد بھٹہ، حسین حقانی، اٹارنی جنرل اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔ کمشن نے کہا کہ جب شہادتیں قلمبند کرنا مقصود ہو گا تو فریقین کو خود حاضر ہونا پڑے گا۔ منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کمشن سے استدعا کی کہ ان کے موکل کے تحفظ کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں، وفاقی اداروں پر انہیں اعتبار نہیں۔ پاک فوج کی نگرانی میں انہیں لایا جائے۔ اٹارنی جنرل نے حکومت کی طرف سے کمشن کو اس سلسلے میں یقین دہانی کرائی لیکن منصور اعجاز کے وکیل نے وفاقی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ ذمہ داری فوج کی خفیہ ایجنسی کو سونپنے کی تجویز دی جسے منظور کرتے ہوئے کمشن نے حکم دیا کہ فوج انہیں تحفظ فراہم کرے۔ کمشن میں کابینہ ڈویژن کی جانب سے مقرر کئے گئے فوکل پرسن بریگیڈیئر ذوالفقار علی پیش ہوئے اور بتایا کہ حکومت پاکستان نے ٹورنٹو میں بلیک بیری کمپنی کو خط لکھ دیا گیا ہے مگر اس کا تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔ سماعت کے دوران حسین حقانی، آئی ایس آئی کے کمانڈر خالد اور ایف آئی اے فرانزک ماہر علی امام کے بیانات قلم بند کئے۔ منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کہا ہے کہ ان کے موکل کے نہ صرف پاکستان آنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں بلکہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر منصور اعجاز پاکستان میں آئے تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔ ایسی صورتحال میں ان کا کمشن کے سامنے پیش ہونا انتہائی مشکل ہے۔ منصور اعجاز کو ای میل سے دھمکیاں مل رہی ہیں جو حسین حقانی استعمال کرتے تھے۔ کمشن کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے عدالتی کمشن کو یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا کہ منصور اعجاز کے خلاف پاکستان آمد پر مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد سیکرٹری داخلہ کو کمشن کے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلایا اور پوچھا کہ آپ اس با ت کی یقین دہانی کرائیں کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے جس پر سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لا کمشن سے مشاورت کے بعد بیان دے سکیں گے جس پر کمشن کے سربراہ نے سرزنش کی اور کہا کہ آپ کمرہ عدالت سے نہیں جا سکتے، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ اٹارنی جنرل نے کمشن کو بتایا کہ حکومت کسی بھی شہری کو کسی بھی شخص کے خلاف درخواست دائر کرنے سے نہیں روک سکتی البتہ انہوں نے کہا کہ اگر منصور اعجاز کے خلاف کوئی بھی درخواست کسی بھی تھانے میں جمع کرائی گئی تو وہ اس بارے میں سپریم کورٹ کو مطلع کریں گے۔ کمشن نے اپنے فیصلے میں منصور اعجاز کے خلاف مقدمات کے اندراج کے لئے دائر درخواستوں کا معاملہ اٹارنی جنرل کی تجویز پر سپریم کورٹ کو ریفر کرنے کی ہدایت کر دی۔ کمشن نے اس ضمن میں ایف آئی آر کے اندراج کے لئے جمع کرائی گئی درخواست پڑھ کر سنائی جس میں تحریر تھا کہ منصور اعجاز کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں راولپنڈی کے رہائشی محمد خالد نے درخواست جمع کرائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ منصور اعجاز ملک دشمن ہیں۔ انہوں نے پاکستانی اداروں کے خلاف اخبارات میں مضمون لکھے، ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا جائے۔ کارروائی کے دوران آئی ایس آئی کے کرنل خالد نے ڈی آئی ایس کی جانب سے خط پیش کیا جس پر کمشن کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس یہ خط آیا ہے آپ کے علم میں ہے، اس پر اٹارنی نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس خط کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ کمشن کے سربراہ نے انہیں خط پڑھنے کے لئے کہا اٹارنی جنرل نے خط پڑھتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے استدعا کی کہ ان کے پاس خفیہ معلومات ہیں جو وہ اوپن کورٹ میں بیان نہیں کر سکتے ہیں، ان کیمرہ ان کی بات کو سنا جائے جسے کمشن نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی بات کرنا ہے اوپن کورٹ میں کی جائے۔ ان کے پاس اگر خفیہ معلومات ہیں تو وہ لفافہ سربمہر کر کے کمشن کو بھیج دیں، کمشن جائزہ لے گا اور پھر فیصلہ کرے گا کہ اسے اوپن یا ان کیمرہ سننا ہے۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ اگر ان کے موکل کو ویزا جاری کر دیا جاتا ہے تو وہ 16 جنوری کے بعد کسی بھی وقت عدالت کے روبرو پیش ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے عدالتی کمشن سے درخواست کی کہ کمشن یہ احکامات جاری کرے کہ منصور اعجاز کا پاسپورٹ برطانیہ میں واجد شمس الحسن کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ اسے عدالت نے سمن کیا ہوا ہے، کسی ذمہ دار افسر کے ذریعے ویزا لگوایا جائے۔ اس پر کمشن کے سربراہ نے کہا کہ سفیر تو ویزا نہیں لگتا یہ کام تو ویزا افسر کا ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ ان کے موکل نے اپنے بلیک بیری فون کی پرائیویسی ویوور کرنے کی اجازت دے دی ہے اور اب حسین حقانی سے بھی کہا جائے کہ وہ ایسا کریں تاہم حسین حقانی کا کہنا تھا کہ فی الوقت ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کے وکیل زاہد حسین بخاری کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے کچھ عرصہ قبل ہی استعفیٰ دیا ہے، ہو سکتا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ان پر کوئی قدغن نہ لگائی گئی ہو۔ آئی ایس آئی کے کمانڈر خالد نے بلیک بیری کے استعمال اور اس کے ایس ایم ایس اور ای میل کو چیک کرنے کے بارے میں تفصیل بتائی۔ کمشن کے سربراہ نے کہا کہ ہم یہ اپنے سمجھنے کے لئے کر رہے ہیں تاکہ ہمیں بھی معلوم ہو کہ بلیک بیری کمپنی کس طرح کام کرتی ہے۔ ایف آئی اے علی امام نے بتایا کہ کسی کے ایس ایم ایس ختم کرنے کے بعد اس پر دوبارہ سے کوئی ماہر اپنی مرضی سے ایس ایم ایس لکھ سکتا ہے۔ کمشن کے سربراہ نے ایف آئی اے ماہر کی بریفنگ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ایف آئی اے کا یہ حال ہے کس طرح کے لوگ رکھے ہوئے ہیں۔ حسین حقانی، آئی ایس آئی اور ایف آئی اے کے ماہرین سے الگ الگ حلف لیا گیا۔ حسین حقانی کے وکیل کا موقف تھا کہ کمشن کس رول کے تحت سماعت کر رہا ہے اگر فوجداری نہیں تو پھر دیوانی طریقہ کار کے مطابق اس کی سماعت کی جائے، اس کے لئے پہلے طریقہ کار طے کر لیا جائے۔ کمشن کے سربراہ نے کہا کہ آپ ہمیں قانون نہ پڑھائیں ہمیں پتہ ہے کہ کس طرح کارروائی کرنی ہے۔ زاہد بخاری نے کہا کہ میمو کیا چیز ہے کمشن کے سامنے کیا ہے جو چیز ہے وہ پہلے لائی جائے جس کو دیکھ کر ہم اس پر بحث کریں گے کمشن کے سامنے ابھی کوئی چیز ہی نہیں اور کارروائی کی جا رہی ہے۔ پاک فوج کی جیگ برانچ کے ایڈووکیٹ جنرل بریگیڈیئر نوبہار کی طرف سے تحریری جواب اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے کمشن کو بھیجا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف، میمو معاملے پر حقائق سے متعلق اپنا تحریری بیان پہلے ہی جمع کرا چکے ہیں وہ پہلے سے طے شدہ چین کے دورے پر ہیں اس لئے وہ کمشن کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔ ایف آئی اے کے فرانزک ماہر نے بتایا کہ فون میں ڈیٹا ٹمپر کیا جا سکتا ہے، یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سے فون سے آیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس ایسے ماہر ہیں تو انہیں اچھا ماہر ڈھونڈنا چاہئے، اگر ماہر کچھ نہیں بتا سکتے تو پھر نہ جانے کیوں ایف آئی اے کا فرانزک ونگ قائم ہے۔ سیکرٹری داخلہ صدیق اکبر نے کمشن کو بتایا کہ وہ منصور اعجاز کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے جس پر کمشن نے کہا کہ وہ مثبت طرز عمل اختیار کریں وقت ضائع نہ کریں، حکم کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے گا جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ اگر کمشن نوٹس جاری کرنا چاہتا ہے تو کر دے قواعد کے مطابق لا ڈویژن سے مشورہ کرنا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا واضح حکم ہے آج کمشن سے تعاون کرنے کے پابند ہیں۔ ایک موقع پر کمشن نے زاہد بخاری سے پوچھا کہ آپ موکل کے حق میں کون سے گواہ پیش کرنا چاہتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے اس پر سوچنے کے لئے 2 ہفتے چاہئیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ وقت زیادہ نہیں ہے، یہ آپ کے کلائنٹ کے حق کی بات ہے پھر نہ کہئے گا کہ آپ کا حق متاثر ہوا۔
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) میموگیٹ کمشن کو حسین حقانی نے ابتدائی بیان ریکارڈ کرا دیا ہے ، اس میں انہوں نے کہا ہے کہ میمو کی تشکیل، اسکی ڈرافٹنگ اور اسے ایڈمرل مولن کو دینے میں انکا کوئی کردار نہیں۔ میمو گیٹ کمشن نے حقانی کا بیان، سوال و جواب کے انداز میں ریکارڈ کیا، اُسے کمشن روم کے کیمرے نے بھی ریکارڈ کیا۔ حقانی نے بیان ریکارڈ کرانے کیلئے حلف دیا اور بتایاکہ وہ یہ بیان بطور سابق سفیر پاکستان دے رہے ہیں، وہ ان دنوں وزیراعظم ہاﺅس میں مقیم ہیں وہ سابق وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ نوازشریف، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے معاون خصوصی بھی رہے، پیشہ کے لحاظ سے وہ سابق سفیر اور سکالر ہیں۔ 2008ءمیں وزیراعظم گیلانی نے انہیں سفیر عمومی مقرر کیا پھر مئی 2008ءمیں امریکہ میں سفیر مقرر کردیا گیا۔ حقانی نے بتایاکہ وطن کی موثر نمائندگی کی خدمات انجام دینے پر حکومت نے ہلال پاکستان کا ایوارڈ دیا۔ نیویارک ٹائمز نے انہیں پاکستان کا ان تھک محافظ قرار دیا، حقانی نے بتایاکہ میمو معاملے میں انہیں غلط طور پر ملوث کیا گیا۔ اس پر 16 نومبر 2011ءکو صدر کو ایک خط میں انہوں نے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم نے انکا جو استعفیٰ منظور کیا اسکا نوٹیفکیشن انکے پاس موجود ہے۔ حقانی کے وکیل نے میمو سے متعلق منصوراعجاز کا اخباری مضمون بھی پیش کیا۔ حقانی نے کہاکہ میموکے مندرجات غلط طور پر ان سے منسوب کئے گئے، میمو کے معاملے میں انکا کوئی کردار نہیں۔ حقانی نے جب کہاکہ سوائے میڈیا کے انہیں میمو کی حیثیت کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں۔ اس پر کمشن نے ان سے کہاکہ آپ نیا باب کھول رہے ہیں، محتاط رہیں۔ عدالت نے دیا گیا بیان تحریری شکل میں آنے پر اسے حقانی کو ملاحظہ کرنے کیلئے بھی دیا۔ حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہاکہ پٹیشنرز کے سیاسی مقاصد ہیں، پہلے ان کے بیانات اور شہادتیں لی جائیں۔ کمشن نے حقانی کی درخواست پر انہیں آئندہ کیلئے حاضری سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ زاہد بخاری نے کمشن کو بتایا کہ میرے موکل نے بلیک بیری پرانے ماڈل سے نئے ماڈل میں تبدیل کئے۔ دونوں بلیک بیری حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ وہ مختصر نوٹس پر پاکستان آئے تھے۔ پرانے بلیک بیری امریکہ چھوڑ آیا ہوں ان کے پن نمبر بھی مجھے یاد نہیں وہ فون امریکہ میں میری رہائش گاہ پر کہیں پڑے ہیں۔ مجھے امریکہ جانے کی اجازت دی جائے۔ امریکہ جاکر ہی دیکھ سکتا ہوں کہ وہ کہاں پڑے ہیں۔ کمشن کے سربراہ نے کہاکہ سفارتی عملے کو ہدایات جاری کر دی جائیں تو وہ یہ سامان پاکستان بھجوا سکتا ہے۔ زاہد بخاری نے کہاکہ اکرم شیخ کا منصور اعجاز کی طرف سے وکالت نامہ کمشن میں داخل نہیں کرایا گیا۔ ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کمشن میں وکالت نامہ داخل کرایا جا رہا ہے۔ زاہد بخاری نے کہا یہ قانونی طور پر وکالت نامہ نہیں، دھوکہ ہے۔ وکالت نامہ کے بغیر اکرم شیخ کیسے پیش ہو سکتے ہیں؟ یہ فائل سے نکال کر کاغذ لا رہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ منصور اعجاز کے لیٹر پیڈ پر پاور آف اٹارنی موجود ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہا ہے کہ منصور اعجاز کے وکیل کے پاس وکالت نامہ موجود نہیں اور شاید ان کا عدالت میں پیش ہونا غیرقانونی تھا۔ عدالت نے اگلی تاریخ سے قبل وکالت نامہ داخل کرنے کی ہدایت کی ہے جب منصور اعجاز درخواست دیں گے تو ویزا مل جائے گا۔ میمو کمشن نے سب کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ابھی کمشن نے ابتدائی معلومات اکٹھی کی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن