اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) میموگیٹ کمشن کو حسین حقانی نے ابتدائی بیان ریکارڈ کرا دیا ہے ، اس میں انہوں نے کہا ہے کہ میمو کی تشکیل، اسکی ڈرافٹنگ اور اسے ایڈمرل مولن کو دینے میں انکا کوئی کردار نہیں۔ میمو گیٹ کمشن نے حقانی کا بیان، سوال و جواب کے انداز میں ریکارڈ کیا، اُسے کمشن روم کے کیمرے نے بھی ریکارڈ کیا۔ حقانی نے بیان ریکارڈ کرانے کیلئے حلف دیا اور بتایاکہ وہ یہ بیان بطور سابق سفیر پاکستان دے رہے ہیں، وہ ان دنوں وزیراعظم ہاﺅس میں مقیم ہیں وہ سابق وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ نوازشریف، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے معاون خصوصی بھی رہے، پیشہ کے لحاظ سے وہ سابق سفیر اور سکالر ہیں۔ 2008ءمیں وزیراعظم گیلانی نے انہیں سفیر عمومی مقرر کیا پھر مئی 2008ءمیں امریکہ میں سفیر مقرر کردیا گیا۔ حقانی نے بتایاکہ وطن کی موثر نمائندگی کی خدمات انجام دینے پر حکومت نے ہلال پاکستان کا ایوارڈ دیا۔ نیویارک ٹائمز نے انہیں پاکستان کا ان تھک محافظ قرار دیا، حقانی نے بتایاکہ میمو معاملے میں انہیں غلط طور پر ملوث کیا گیا۔ اس پر 16 نومبر 2011ءکو صدر کو ایک خط میں انہوں نے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم نے انکا جو استعفیٰ منظور کیا اسکا نوٹیفکیشن انکے پاس موجود ہے۔ حقانی کے وکیل نے میمو سے متعلق منصوراعجاز کا اخباری مضمون بھی پیش کیا۔ حقانی نے کہاکہ میموکے مندرجات غلط طور پر ان سے منسوب کئے گئے، میمو کے معاملے میں انکا کوئی کردار نہیں۔ حقانی نے جب کہاکہ سوائے میڈیا کے انہیں میمو کی حیثیت کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں۔ اس پر کمشن نے ان سے کہاکہ آپ نیا باب کھول رہے ہیں، محتاط رہیں۔ عدالت نے دیا گیا بیان تحریری شکل میں آنے پر اسے حقانی کو ملاحظہ کرنے کیلئے بھی دیا۔ حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہاکہ پٹیشنرز کے سیاسی مقاصد ہیں، پہلے ان کے بیانات اور شہادتیں لی جائیں۔ کمشن نے حقانی کی درخواست پر انہیں آئندہ کیلئے حاضری سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ زاہد بخاری نے کمشن کو بتایا کہ میرے موکل نے بلیک بیری پرانے ماڈل سے نئے ماڈل میں تبدیل کئے۔ دونوں بلیک بیری حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ وہ مختصر نوٹس پر پاکستان آئے تھے۔ پرانے بلیک بیری امریکہ چھوڑ آیا ہوں ان کے پن نمبر بھی مجھے یاد نہیں وہ فون امریکہ میں میری رہائش گاہ پر کہیں پڑے ہیں۔ مجھے امریکہ جانے کی اجازت دی جائے۔ امریکہ جاکر ہی دیکھ سکتا ہوں کہ وہ کہاں پڑے ہیں۔ کمشن کے سربراہ نے کہاکہ سفارتی عملے کو ہدایات جاری کر دی جائیں تو وہ یہ سامان پاکستان بھجوا سکتا ہے۔ زاہد بخاری نے کہاکہ اکرم شیخ کا منصور اعجاز کی طرف سے وکالت نامہ کمشن میں داخل نہیں کرایا گیا۔ ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کمشن میں وکالت نامہ داخل کرایا جا رہا ہے۔ زاہد بخاری نے کہا یہ قانونی طور پر وکالت نامہ نہیں، دھوکہ ہے۔ وکالت نامہ کے بغیر اکرم شیخ کیسے پیش ہو سکتے ہیں؟ یہ فائل سے نکال کر کاغذ لا رہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ منصور اعجاز کے لیٹر پیڈ پر پاور آف اٹارنی موجود ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہا ہے کہ منصور اعجاز کے وکیل کے پاس وکالت نامہ موجود نہیں اور شاید ان کا عدالت میں پیش ہونا غیرقانونی تھا۔ عدالت نے اگلی تاریخ سے قبل وکالت نامہ داخل کرنے کی ہدایت کی ہے جب منصور اعجاز درخواست دیں گے تو ویزا مل جائے گا۔ میمو کمشن نے سب کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ابھی کمشن نے ابتدائی معلومات اکٹھی کی ہیں۔
میمو میں میرا کوئی کردار نہیں: سابق پاکستانی سفیر‘ منصور اعجاز کو ویزا دیا جائے‘ فوج‘ پولیس سیکورٹی دیں: عدالتی کمشن
Jan 10, 2012
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) میموگیٹ کمشن کو حسین حقانی نے ابتدائی بیان ریکارڈ کرا دیا ہے ، اس میں انہوں نے کہا ہے کہ میمو کی تشکیل، اسکی ڈرافٹنگ اور اسے ایڈمرل مولن کو دینے میں انکا کوئی کردار نہیں۔ میمو گیٹ کمشن نے حقانی کا بیان، سوال و جواب کے انداز میں ریکارڈ کیا، اُسے کمشن روم کے کیمرے نے بھی ریکارڈ کیا۔ حقانی نے بیان ریکارڈ کرانے کیلئے حلف دیا اور بتایاکہ وہ یہ بیان بطور سابق سفیر پاکستان دے رہے ہیں، وہ ان دنوں وزیراعظم ہاﺅس میں مقیم ہیں وہ سابق وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ نوازشریف، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے معاون خصوصی بھی رہے، پیشہ کے لحاظ سے وہ سابق سفیر اور سکالر ہیں۔ 2008ءمیں وزیراعظم گیلانی نے انہیں سفیر عمومی مقرر کیا پھر مئی 2008ءمیں امریکہ میں سفیر مقرر کردیا گیا۔ حقانی نے بتایاکہ وطن کی موثر نمائندگی کی خدمات انجام دینے پر حکومت نے ہلال پاکستان کا ایوارڈ دیا۔ نیویارک ٹائمز نے انہیں پاکستان کا ان تھک محافظ قرار دیا، حقانی نے بتایاکہ میمو معاملے میں انہیں غلط طور پر ملوث کیا گیا۔ اس پر 16 نومبر 2011ءکو صدر کو ایک خط میں انہوں نے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم نے انکا جو استعفیٰ منظور کیا اسکا نوٹیفکیشن انکے پاس موجود ہے۔ حقانی کے وکیل نے میمو سے متعلق منصوراعجاز کا اخباری مضمون بھی پیش کیا۔ حقانی نے کہاکہ میموکے مندرجات غلط طور پر ان سے منسوب کئے گئے، میمو کے معاملے میں انکا کوئی کردار نہیں۔ حقانی نے جب کہاکہ سوائے میڈیا کے انہیں میمو کی حیثیت کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں۔ اس پر کمشن نے ان سے کہاکہ آپ نیا باب کھول رہے ہیں، محتاط رہیں۔ عدالت نے دیا گیا بیان تحریری شکل میں آنے پر اسے حقانی کو ملاحظہ کرنے کیلئے بھی دیا۔ حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہاکہ پٹیشنرز کے سیاسی مقاصد ہیں، پہلے ان کے بیانات اور شہادتیں لی جائیں۔ کمشن نے حقانی کی درخواست پر انہیں آئندہ کیلئے حاضری سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ زاہد بخاری نے کمشن کو بتایا کہ میرے موکل نے بلیک بیری پرانے ماڈل سے نئے ماڈل میں تبدیل کئے۔ دونوں بلیک بیری حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں۔ حسین حقانی نے کہا کہ وہ مختصر نوٹس پر پاکستان آئے تھے۔ پرانے بلیک بیری امریکہ چھوڑ آیا ہوں ان کے پن نمبر بھی مجھے یاد نہیں وہ فون امریکہ میں میری رہائش گاہ پر کہیں پڑے ہیں۔ مجھے امریکہ جانے کی اجازت دی جائے۔ امریکہ جاکر ہی دیکھ سکتا ہوں کہ وہ کہاں پڑے ہیں۔ کمشن کے سربراہ نے کہاکہ سفارتی عملے کو ہدایات جاری کر دی جائیں تو وہ یہ سامان پاکستان بھجوا سکتا ہے۔ زاہد بخاری نے کہاکہ اکرم شیخ کا منصور اعجاز کی طرف سے وکالت نامہ کمشن میں داخل نہیں کرایا گیا۔ ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کمشن میں وکالت نامہ داخل کرایا جا رہا ہے۔ زاہد بخاری نے کہا یہ قانونی طور پر وکالت نامہ نہیں، دھوکہ ہے۔ وکالت نامہ کے بغیر اکرم شیخ کیسے پیش ہو سکتے ہیں؟ یہ فائل سے نکال کر کاغذ لا رہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ منصور اعجاز کے لیٹر پیڈ پر پاور آف اٹارنی موجود ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہا ہے کہ منصور اعجاز کے وکیل کے پاس وکالت نامہ موجود نہیں اور شاید ان کا عدالت میں پیش ہونا غیرقانونی تھا۔ عدالت نے اگلی تاریخ سے قبل وکالت نامہ داخل کرنے کی ہدایت کی ہے جب منصور اعجاز درخواست دیں گے تو ویزا مل جائے گا۔ میمو کمشن نے سب کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ابھی کمشن نے ابتدائی معلومات اکٹھی کی ہیں۔