الطاف مجاہد
لاکھوں حُروں کے روحانی پیشوا اور سندھ میں نظریہ پاکستان اور اسلام کے تن تنہا علی اعلان محافظ ”پیرپگارا“ تھے۔ شاہ مردان شاہ ثانی سید سکندر علی شاہ عرف چھت دھنیؒ سندھ ہی نہیں پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ہلکے پھلکے اور کبھی کبھی تند و تیز لہجے میں اپنا موقف بیان کرنے اور ڈٹ جانے کا حوصلہ انہیں ورثہ میں ملا تھا اپنے شہید والد سوربیہ بادشاہ صبغت اللہ شاہ ثانیؒ کی طرح جنہوں نے پھانسی کا پھندہ چوما تھا مفاہمت نہیں کی تھی۔
پیر پگارا کیا تھے؟ یہ سوال بہت سے استفسارات کو جنم دیتا ہے اور کتنے ہی جواب سامنے لاتا ہے۔ ضیاءالحق کے شریعت بل کی کھلی مخالفت‘ بھٹو عہد میں انکے جبر کی شدید مزاحمت‘ قوم پرستوں پر کڑی تنقید‘ کالا باغ ڈیم کی واضح حمایت‘ فوج سے واسطے داری اور مہاجروں سے تعلق داری بیان کرنے نبھانے کا دل گردہ ان ہی کے پاس باتیں ایسی کہتے جو مقابل کے دل و دماغ ہی نہیں سینے میں اتر جاتیں بسااوقات ایسا گھائل کہ نشانہ بننے والا بھی لطف اٹھائے بنا نہ رہتا۔
ایک پریس کانفرنس میں صحافی نے سوال کیا کہ ملک میں مارشل لاءہے مسلم لیگ مخالفت میں تحریک کیوں نہیں چلاتی؟ پیر صاحب کا جواب تھا ”بھئی ہماری جماعت باشعور لوگوں کی ہے جس کا کام فلور آف دی ہاﺅس یعنی اسمبلی میں بات کرنا ہے ہم گلیوں میں اینٹ پتھر نہیں مارتے“ سندھ 70ءکی دہائی میں لینگویج بل کے بعد عصبیت اور نفرت کے الاﺅ میں جل رہا تھا اس وقت پیر پگارا ہی تھے جنہوں نے جماعت کو حکم دیا کہ اپنے علاقوں میں آباد پنجابیوں‘ مہاجروں اور پشتو و دیگر زبانیں بولنے والوں کا تحفظ کیا جائے۔ تحفظ پر یاد آیا کہ 65ءمیں پیر پگارا ہی تھے جنہوں نے لاکھوں حُروں کو محاذ پر بھیجا تاکہ وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کیا جا سکے بزلہ سنجی اور فقرے بازی پیر صاحب پر ختم تھی ایک بار ان کی جنرل ضیاءالحق سے ٹھنی ہوئی تھی کہ پیر صاحب کو دعوت ملی اور عشائیہ پر چلے گئے۔ اگلے روز صحافیوں نے رات کی ملاقات پر تبصرہ چاہا کہنے لگے۔ صدر صاحب نے نیا باورچی رکھا ہے میں مینو چیک کرنے گیا تھا۔ مختصر سے جملے میں بہت کچھ پنہاں تھا۔ پیر صاحب کی بات سمجھنے کے لئے بھی جینئس ہونا شرط تھا کہ عام آدمی کے سر پر سے جملہ گزر جاتا تھا۔ بے نظیر بھٹو کا دور تھا سید صفدر علی راوی ہیں کہ کسی نے پوچھا یہ حکومت کب تک رہے گی؟ پیر صاحب نے کہا یہ اپنی مدت تو پوری نہیں کر سکے گی البتہ وقت ضرور پورا کر رہی ہے۔ 90ءمیں پیر پگارا کی سالگرہ تھی سکھر کے اسلام الدین شیخ جو آج کل پی پی میں سنیٹر ہیں پھولوں کا تحفہ لیکر آئے اور پیر صاحب کے ساتھ تصویر بنوانے لگے تو پیر صاحب کا کہنا تھا ”پانچ روپے کے پھول میں پندرہ روپے کا فوٹو بنواتے ہو“ اس پر قہقہہ پڑا اس لئے پیر صاحب کے ساتھ تصویر کی دیہی سندھ میں بڑی قدر و قیمت ہے۔ شاہ مردان شاہ ثانی مرحوم کے بدترین مخالف بھی انہیں ہیوی ویٹ (زور آور یا وزن دار) تسلیم کرتے تھے کہ سکندر مرزا دور میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو آگے لائے۔ محمد خان جونیجو کو وزیر بنوایا پھر ضیاءدور میں غوث علی شاہ وزیراعلیٰ اور اول لذکر وزیراعظم بنے اسکے بعد کے ادوار میں تو بادشاہ گر ان کا لقب ٹھہرا کہ بلخ شیر مزاری‘ مظفر حسین شاہ‘ جام صادق علی سمیت کتنے ہی افراد ہم مناصب پر پہنچے تو کنگری ہاﺅس کی پرچی انکے لئے نصیب آور ثابت ہوئی۔
موجودہ پیر پگارا نے اپنے مریدین کو روایتی پگڑی کے ساتھ ساتھ سندھی ٹوپی پہننے کی اجازت دیدی ہے لیکن پیر پگارا مرحوم اس معاملے میں کسی اور رعایت کے قائل نہ تھے۔ غالباً 1989ءکی بات ہے عید کے موقع پر پیرگوٹھ میں مریدوں سے روایتی خطاب میں انہوں نے حکم دیا کہ حُر قومی یکجہتی کے مظاہرے کے لئے روایتی پگڑی باندھیں یا پھر جناح کیپ پہنیں ان دنوں بھی مریدین نے سفید صافے کی بجائے علاقائی شناخت کی ٹوپیاں پہننی شروع کر دی تھیں اسی طرح جب علاقائی اور نسلی شناختوں کا سلسلہ آ گے بڑھا تو آپ نے قوم پرستوں کو للکارا کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ سندھیوں کی قیادت کریں۔ پیر صاحب فرمانے لگے میں سندھیوں کا نہیں حُروں کا لیڈر ہوں کیونکہ سندھیوں نے تو 42ءکی سندھ اسمبلی میں حُر ایکٹ کی منظوری دی تھی جن کے بعد حُروں پر مارشل لاءلگا اور مظالم توڑے گئے۔ پیر صاحب قوم پرستوں کو ”پیٹ پرست“ قرار دیتے تھے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ سامنے آیا تو پیر صاحب نے اس کی حمایت کی اور مخالفوں کے بارے میں تبصرہ تھا کہ بھئی ڈیم بنا تو پانی ذخیرہ ہوگا فصلیں آباد ہوں گی مخالف تو وہ ہیں جن کے پاس ایک ایکڑ زمین نہیں وہ کراچی کی بدامنی پر کہا کرتے تھے کہ یہ پھر سے پاکستان کا دارالحکومت بنے گا اسے مرکز کے زیر انتظام ہونا چاہیے آج جب فنکشنل لیگ کی قیادت کے بعض فیصلے سیاسی حلقوں میں نشانہ تنقید ہیں تو پیر پگارا شدت کے ساتھ یاد آتے ہیں۔ 87ءمیں سیٹھ ہارون احمد کی رہائش گاہ پر استقبالیے میں انہوں نے مہاجر کمیونٹی کو بہت سے مشورے دیے کہنے لگے ”قیام پاکستان کے لئے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے جتنا خون بہایا تھا اس کی مثال نہیں ملتی چاروں صوبوں نے پاکستان کی وجہ سے ترقی کی ہے اور صرف پسینہ بہایا ہے۔ مہاجروں کو چاہئے کہ اپنی اور اپنی اولاد کے تحفظ کے لئے مسلم لیگ میں آ جائیں۔ مسلم لیگ ان کے لئے چھتری کا کام دے گی۔ مسلم لیگ گھنا درخت ہے آپ لوگ اُونٹ نہ بنیں ہندوستان میں اُونٹ نہیں ہوتے۔ اُونٹ جس درخت کے نیچے بیٹھتا ہے اسی کی شاخیں کھاتا ہے۔ مسلم لیگ پر آپ کا حق ہے۔ آپ کو اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جماعت پر چھا جانا چاہئے۔ الطاف حسین کو مخاطب کرتے ہوئے پیر صاحب نے کہا کہ ”فلسطینی ایک قوم ہیں وہ کتنے حصوں میں بٹ گئے ہیں جبکہ وہ تو ایک ہی صوبے کے لوگ ہیں۔ آپ تو مختلف صوبوں سے آئے ہیں۔“ ایک بار کہنے لگے ”اللہ کے فضل سے ہمارا ”گھوڑا“ ڈربی بھی جیتا ہے اور سیاست میں بھی جیت گیا میں جین ڈکسن کی طرح پیش گوئیوں کی کتابیں نہیں لکھتا لیکن جو کہوں اسے دیوار پر لکھ لیا کرو کہ میری بات اللہ کے کرم سے سچی ہوتی ہے اور جنرل (ضیاءالحق) کی بات کو سیکرٹری اطلاعات مجیب الرحمان سچی کر دیتے ہیں۔“
پیر صاحب پر سینکڑوں ہزاروں صفحات لکھے جا سکتے ہیں کہ وسیع المطالعہ شخص تھے جب پاکستان میں معدودے چند لوگ کمپیوٹر کے بارے میں جانتے تھے اس وقت وہ اسے استعمال کرتے تھے، انسانی نفسیات، علم، سیارگان اور مردم شناسی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
”حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا“
ایک روشن چراغ تھا نہ رہا‘ باتیں پیرپگارا کی
Jan 10, 2013