ہر علاقہ اور شہر اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی منفرد پہچان رکھتا ہے جو آہستہ آہستہ اس کا تاریخی حوالہ بن جاتی ہے۔ تاریخی اور روایتی حوالے سے گوجرانوالہ پہلوانوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُس پہ طرہ یہ ہے کہ یہاں پر مرغن کھانوں کا سلسلہ دورِ قدیم سے چلا آ رہا ہے شاید اسی لیے یہاں کے باسیوں کی خوش خوراکی ان کی قامت اور جسامت سے نظر آتی ہے۔ لیکن گوجرانوالہ کاصرف یہی تعارف نہیں بلکہ اس شہر نے بہت سے نامور سےاستدان، صحافی، شاعر، ادےب اور فنکار بھی پےدا کئے ہےں جو عالمگیر شہرت کے حامل ہیں۔ سیاست کی بات کریں تو سابق صدر رفےق تارڑ، سابق سپےکر انور بھنڈر، حامد ناصر چٹھہ کے علاوہ غلام دستگیر خان اور خرم دستگےر بھی اسی شہر کی آواز ہےں۔ مرغن غذائیں کھانے والوں کا یہ شہر پاکستان کی بہت بڑی صنعتی ضروےات پوری کرنے والا شہر بھی ہے۔ فیصل آباد کے بعد پنجاب کا بڑا صنعتی مرکز ہے۔ یہاں کی مصنوعات پورے ملک کو فراہم کی جاتی ہیں اور یہ مصنوعات معیار کے اعتبار سے معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ لاہور کو ساری دنےا زندہ دلان کا شہر سمجھتی ہے لیکن گوجرانوالہ کو ایک امتیاز حاصل ہے کہ یہ نہ صرف لاہور کے قریب ہے بلکہ پنجاب کے بڑے شہروں کے درمیان ایک رابطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ زندہ دلی کے حوالے سے بھی یہ لاہور سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے بار بار اپنے عمل سے ےہ ©©ثابت کےا ہے کہ وہ کسی حوالے سے بھی لاہور سے دور ہےں نہ مختلف بلکہ لاہور سے شروع ہونے والی ہر سیاسی، سماجی اور معاشرتی تحریک میں لاہور کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ دو سال پہلے لوڈشےدنگ کے خلاف پورے ملک مےں احتجاج ہوا لیکن جےسا احتجاج اس شہر کے باسےوں نے کےا اسے پوری دنےا نے دیکھا اور حکومت کو بھی اسے نظرانداز کرنا مشکل ہو گیا۔ پھر جب مےاں محمد نواز شرےف نے لاہور سے چےف جسٹس کی بحالی کا لانگ مارچ کےا تو اس شہر کے باسیوں نے انصاف کی بالا دستی کے لئے بے مثال مظاہرہ کیا اور لوگ تمام رات سڑکوں پہ دےوانہ وار نعرے لگاتے اور اپنے پختہ ارادوں کا اظہار کرتے نظر آئے جس کے نتیجے میں حکومت وقت کو راتوں رات چےف جسٹس صاحب کو بحال کرنا پڑا۔
یوں تو ےہ شہر ہر دور مےں پاکستانی سےاست مےں اہمیت کا حامل رہا ہے اور یہاں کے سیاست دان بھی بڑے سرگرم اور متحرک رہے ہیں مگر ان سیاستدانوں کی تگ و دو کا اثر شہر میں کم کم نظر آتا تھا۔ اب سے چند سال پہلے تک اس شہر کو دےکھ کے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ےہ شہر انتہائی پسماندہ اور ترقی ےافتہ شہروں سے بہت پےچھے رہ گےا ہے کیوں کہ اس کا ظاہر بہت بھیانک تھا۔ لوگوں کو اندر کی ترقی بعد میں پتہ چلتی ہے پہلے تو وہ ظاہر کا حسن ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن یہاں کا ظاہر کا حسن نہ صرف ماند پڑ چکا تھا بلکہ مسائل کی آماجگاہ بنتا جا رہا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ سڑکوں اور ٹریفک کا تھا۔ اکثر لوگ لاہور سے گجرات جاتے ہوئے شہر میں داخل ہونے سے گریز کرتے تھے کیوں کہ وہاں سے گزرنا ناممکن ہو رہا تھا۔ اس پر دھواں، گرد اور آلودگی کا تو کیا کہنا! ایک وقت آ گیا کہ لوگ کہنے لگ گئے کہ اس شہر کے مکینوں کو صرف کھانوں اور کشتیوں سے ہی شغف ہے مگر پھر اس شہر کی قسمت جاگ گئی اور خادم اعلیٰ کی خصوصی نظر عناےت سے اس شہر نے سنورنا شروع کےا تو ہر ©©©طرف زندگی کی اک نئی بہار نظر آنے لگی۔ پہلے مےاں صاحب کی خصوصی ہداےت پر پورے شہر کی سڑکوں کو دن رات اےک کر کے تعمےر کےا گےا۔ جب پورے شہر مےں سڑکوں کا جال بچھ گےا تو سڑکوں کے دونو ں طرف خوبصورت درخت لگائے گئے۔ اب جب اس شہر میں ٹرےفک کے نظام کو بہتر انداز مےں کنٹرول کرنے کے لئے فلائی اوور کا منصوبہ شروع کےا گےا ہے جو کہ خادم اعلیٰ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے جلد تکمےل کی منزل تک پہنچنے والا ہے۔ مےاں حمزہ شہباز بھی اس شہر سے خصوصی لگاﺅ رکھتے ہیں۔ وہ اکثر ےہاں تشرےف لا کر شہر کی بہتری کے لئے کی جانے والی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ شاےد اسی وجہ سے ےہاں کے لوگ پاکستان مسلم لیگ ن سے پےار کرتے ہےں کہ ےہ صرف دعوے کرنے والی جماعت نہےں بلکہ عملی کام کر کے نتائج دکھانے والی جماعت ہے۔ آج اس شہر سے گزرتے ہوئے ایک خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوتا ہے جو دلوں کو مسرور اور روحوں کو گلزار کر دیتی ہے۔ گوجرانوالہ شہر کے لوگوں کی سب سے اچھی عادت یہ ہے کہ ےہ بڑے صاف گو اور نڈر ہےں، جو بات کرتے ہےں اس کو کر کے نبھاتے ہےں۔ ٹریفک اور سڑکوں کے نظام کی بہتری کے بعد یہاں کی صنعتوں پر بہت مفید اثر ہوا ہے۔ خدا کرے یہ شہر صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی، علمی، ادبی اور معاشرتی میدانوں میں بھی ترقی اور تبدیلی کی نئی تاریخ رقم کرے۔