امیر شہر سے انصاف مل رہا ہے ہمیں
ہمارے سامنے اب دور تک اجالا ہے
گذشتہ سال 2012ءمیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنا آئینی کردار احسن طریقے سے انجام دیا۔ عدلیہ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں نہ صرف ملکی دستور کی تشریح و توضیح کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ بے شمار رٹ پٹیشنز پر فیصلے صادر کئے اور متعدد اہم معاملات میں سوموٹو کارروائی بھی کی جس سے قومی عدالتی نظام کو استحکام ملا۔ سپریم کورٹ کے مختلف بنچوں نے دوران سال جو اہم فیصلے صادر کئے ان میں این آر او، رینٹل پاور پلانٹس، توہین عدالت، دوہری شہریت، سوئس خط، بلوچستان کی صورتحال، اصغر خان کیس، کراچی ٹارگٹ کلنگ اور الطاف حسین توہین عدالت کے معاملات نمایاں تھے۔ دس جنوری 2012ءکو سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے ایک مختصر فیصلہ دیا جس میں این آر او فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کے لئے حکومت کو چھ آپشنز دئیے گئے تھے۔ بعدازاں 14 جنوری کو نیب نے فیصلہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وہ تمام 155 کیس دوبارہ کھول دئیے جو مختلف مراحل پر بند کر دئیے گئے تھے۔ نیب کے چیئرمین ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نے بتایا کہ تمام مقدمات کو قانون کے مطابق نمٹایا جائے گا۔ 54 مقدمات کا فیصلہ احتساب عدالتوں نے کیا اور تین مقدمات کو اعلیٰ عدالتوں نے سنا جبکہ بقیہ مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ بیورو نے این آر او مقدمات سے متعلقہ 104 رپورٹیں عدالت عالیہ کو بھجوا دیں تھیں۔ قارئین نوائے وقت کو یاد ہو گا کہ این آر او کا معاملہ 5 اکتوبر 2007ءکو شروع ہوا جب سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک قومی مفاہمتی آرڈیننس (NRO) جاری کیا جس کے تحت بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور کئی سیاستدانوں کے خلاف مقدمات واپس لے لئے گئے تھے۔ این آر او کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو 2007ءمیں وطن واپس آ گئیں۔ تاہم بعد میں 16 دسمبر 2009ءکو سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سرکردگی میں وہ تاریخی فیصلہ دیا جس کے تحت این آر او کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے 17 رکنی بنچ نے حکومت سے کہا کہ بیرونی ممالک میں منی لانڈرنگ کے مقدمات کی پیروی کرے۔ تاہم بدقسمتی سے وفاقی حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے این آر او فیصلے پر عملدرآمد کرنے سے گریزاں رہی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کو 10 جنوری کا حکم صادر کرنا پڑا۔ اس طرح یہ اہم معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچا۔
بعدازاں 30 مارچ 2012ءکو عدالت عالیہ نے رینٹل پاور پلانٹس سے متعلق اپنا عہد ساز فیصلہ بھی صادر کیا۔ اس کے تحت عدالت نے ان منصوبوں سے متعلقہ تمام معاہدات کو منسوخ کر دیا کیونکہ یہ غیر شفاف تھے۔ نوے صفحات پر مشتمل فیصلے میں چیف جسٹس نے فرمایا کہ یہ معاہدات قوانین کی خلاف ورزی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
سپریم کورٹ نے رینٹل پاور پلانٹس کے حوالے سے جن انیس اہم شخصیات کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رکھا۔ ان میں راجہ پرویز اشرف (سابق وزیر توانائی) لیاقت علی جتوئی (سابق وزیر توانائی) طارق حمید (سابق وزیر توانائی) شوکت ترین (سابق وزیر خزانہ) شاہد رفیع (سابق سیکرٹری) محمد اسماعیل قریشی (سابق سیکرٹری) اشفاق محمود (سابق سیکرٹری) سلمان صدیق (سابق فنانس سیکرٹری) خالد سعید (سابق چیئرمین نیپرا) لیفٹیننٹ جنرل سعید الظفر (سابق چیئرمین نیپرا) یوسف علی (سی ای جینکو) خالد عرفان (ایم ڈی پی پی آئی بی) فیاض الٰہی (ایم ڈی) یوسف میمن (ایم ڈی) طاہر بشارت چیمہ (ایم ڈی) منور بصیر احمد (ایم ڈی پیپکو) محمد آصف سلیم (سی ای او پیپکو) فضل احمد خان (سی ای او) اور چودھری محمد انور (سی ای او) شامل تھے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے حکم پر بارہ رینٹل پاور پلانٹس کو بھی قبضے میں لے لیا گیا ان میں ٹیہنو ای پاور، ینگ جنریشن، ٹیکنو ای پاور، پاکستان پاور ری سورسز، کار کے کاروڈینیز، گلف رینٹل، ریشما پاور، والٹرز پاور انٹرنیشنل، والٹرز پاور انٹرنیشنل II، ایم ایس آلسٹوم، ایم ایس جنرل الیکٹرک پاور اور پاکستان پاور ری سورسز شامل تھے۔
موجودہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلے کر رہی ہے ان کا مقصد عوام اور اداروں کو انصاف فراہم کرنے کے علاوہ ملک سے کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ کر حکومتی سطح پر اچھا انتظام و انصرام رائج کرنا ہے۔ عدالت عالیہ نے 3 اگست کو ایک مختصر فیصلے میں پارلیمنٹ کے منظور کردہ توہین عدالت کے بل کو غیر آئینی قرار دیا کیونکہ یہ عدالت کے وقار کے منافی تھا۔ دوہری شہریت بھی ان دنوں ملک کے تمام حلقوں میں زیر بحث ہے۔ عدالت عالیہ نے آئین کی دفعہ 63 ون سی کے تحت دوہری شہریت کے حامل گیارہ اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دے دیا۔ پاکستان کے شہریوں کو چاہئے کہ وہ اپنے وطن عزیز کو دنیا کے تمام خطوں پر ترجیح دیں۔
وطن کی مٹی وطن کی خوشبو سے پیار کر لیں
وطن کو پھولوں سے اب سجائیں بہار کر لیں
مگر حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد دوہری شہریت رکھتی ہے اور ان کا زیادہ تر کاروبار بھی بیرون ممالک ہے۔ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس بلوچستان کے صوبے میں اصلاحات کرنے اور بالخصوص گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے بھرپور کوشش کی جس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پیش پیش رہے۔ بلوچستان کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ قوم پرستوں کے ساتھ مثبت ڈائیلاگ شروع کریں۔ 27 ستمبر کو بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر جان مینگل نے خود ساختہ تین سالہ جلاوطنی کے بعد سپریم کورٹ کو بتایا کہ افراد کی گمشدگی بلوچستان میں بے چینی کی بڑی وجہ ہے۔ اس نے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے چھ نکاتی چارٹر بھی پیش کیا جسے کچھ حلقوں نے مجیب کے چھ نکات سے مماثل قرار دیا۔ علاوہ ازیں سوئس حکام کو خط لکھنے کا مسئلہ بھی تین سال سے پارلیمنٹ اور عدلیہ میں محاذ آرائی کا باعث بنا رہا ہے اور اس کی وجہ سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی اپنی کرسی سے دھونا پڑے۔ 10 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے پیش کردہ مسودہ خط کی منظوری دے کر یہ مسئلہ ختم کر دیا۔ بقول نسیم
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
سپریم کورٹ نے ایک اور تاریخی فیصلے میں اصغر خان کی پٹیشن کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ 1990ءکے انتخابات کو 140 ملین روپے تقسیم کرکے مکدر کر دیا گیا۔ فاضل عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے تحقیقات کرے کہ کن سیاستدانوں نے رقومات وصول کیں اور یہ سرکاری فنڈز ان سے وصول کئے جائیں۔ اس نے حکومت کو ہدایت جاری کی کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ سپریم کورٹ نے دوران سال کرپشن کو ختم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے بے شمار فیصلے کئے۔ مثال کے طور پر اس نے ووٹر لسٹوں کی تصدیق کئے بغیر ضمنی انتخابات کروانے پر پابندی لگائی۔ بلوچستان میں افراد کے قتل سے متعلق آئی ایس آئی سے رپورٹ طلب کی۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد منتخب شدہ اراکین اسمبلی کی برطرف کر دیا۔ وزیر اعلیٰ گیلانی پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرکے اسے سزا دی۔ فرح ناز اصفہانی کی رکنیت اسمبلی کو معطل کر دیا۔ ارسلان چودھری کیس کی سماعت کی اور بعدازاں اسے سڈل کمشن کے سپرد کیا۔ عدالت نے بلوچستان میں جاری صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور صوبہ میں جاری متنازعہ ریکوڈک معاہدہ کا جائزہ لینے کے لئے اس کی سماعت کی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عدالت عالیہ کے ایک تین رکنی بنچ نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دے کر ٹیتھیان کمپنی کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ نے نئے سال کا تحفہ قوم کو دیتے ہوئے گذشتہ برس کی طرح انصاف فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔