ڈاکٹر طاہرالقادری کی حیات و شخصیت کھلی کتاب ہے جو جہدِ مسلسل اور عمل پیہم کی تصویر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خوبی ہے کہ زندگی کی بڑی سے بڑی ناکامی اور بدنامی بھی ان کی ہمت و جرات کم نہ کر سکی۔ اگر ان کی زندگی اور کردار کا بغور جائزہ لیا جائے تو کامیابی کا پلڑا زیادہ بھاری نہیں۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کام کا آغاز (سٹارٹ) آخری گیئر سے کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں بلبلے کی طرح باہر جا کر بیٹھ رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کریڈٹ میں دوہری شہریت اور منہاج القرآن تعلیمی نیٹ ورک ہے جو شہروں اور دیہات میں پھیلا ہوا ہے۔ آج کل دوہری شہریت کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر طبقے بشمول ڈاکٹر صاحب، افغانستان میں حملہ آور مغربی اتحادی ممالک کے شہری ہیں اور یہی مغربی ممالک پاکستان میں ڈرون حملے بھی کرتے ہیں۔ اس امر کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے شہریوں کی اولین وفاداری کس ملک کے ساتھ ہے؟ پاکستانی شہریت پیدائشی مجبوری ہے جبکہ شہریت چاہت ہے اور غالباً چاہت اور محبت ہی غالب رہتی ہے۔ علاوہ ازیں بعض اوقات مغربی پیدائشی شہریت کے حامل مخلص مسلمان بھی ”ناپسندیدہ“ قرار پا کر امریکہ کے حوالے کر دئیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا سیاسی مشن ”سیاست نہیں، ریاست بچاﺅ“ ہے۔ ان کی آمد بزعم خویش تاریخ ساز ہے۔ قائداعظم نے پاکستان کا مطالبہ 23 مارچ 1940ءکے اجلاس میں کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ”ریاست بچاﺅ، سیاست مکاو“ کا نعرہ 23 دسمبر 2012ءکو دیا۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے کہ ریاست اور موجودہ حکمران اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ ڈاکٹر صاحب نے موجودہ حکمرانوں کے خلاف 14 جنوری 2013ءبروز پیر اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ علاوہ ازیں فوج سے حمایت اور مداخلت کی اپیل کر دی ہے۔ موجودہ حکمرانوں اور ڈاکٹر صاحب کے حلیف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے براہ راست فوج کو مارشل لاءلگانے کی دعوت بھی دے دی۔ ڈاکٹر صاحب اور الطاف حسین کا الیکشن سے 3 ماہ قبل نظام کی تبدیلی، فوجی انقلاب کی دعوت اور لانگ مارچ کا اعلان درج ذیل چند دیرپا اثرات کا حامل ہے۔ پی پی پی سرکار کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ وہ شہید جمہوریت کہلائیں جس کے لئے سیاسی فساد یا فوجی انقلاب کی ضرورت ہے۔ عوام اور شریف برادران کے صبر و شکر نے پی پی پی کو پہلی بار منتخب جمہوری مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ آئندہ الیکشن میں پی پی پی سرکار کی ناکامی اور ن لیگ کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے۔ جس کا مغربی مبصرین بھی ذکر کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ و مغربی اتحادی ممالک کی حکمت عملی ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا 2014ءکے وقت پاکستان میں امریکہ کی حلیف اور موجودہ حکمرانوں کی طرح اجیر حکومت موجود ہو۔ شریف برادران امریکی و مغربی ممالک کے ساتھ مکمل فرمانبرداری کی ڈیل کو تیار نہیں جبکہ امریکہ کو سیاست میں دوسرے زرداری اور فوجی آمریت میں دوسرے جنرل پرویز مشرف کی اشد ضرورت ہے۔ الیکشن سر پر ہے اور دسمبر 2013ءتک موجودہ آرمی چیف، چیف جسٹس اور زرداری کی مدت صدارت بھی ختم ہو رہی ہے۔ اگر الیکشن کے بعد امریکہ کی ہمنوا پارلیمان اور حلیف حکومت نہیں بنتی تو الیکشن بے معنی ہیں۔ دریں صورت اگر مارشل لاءلگایا جائے تو امریکہ کے کچھ اہداف پورے ہو جاتے ہیں مگر ملک کے اندرونی اور بیرونی دگرگوں حالات کے باعث فوج اور آرمی چیف مارشل لاءکے حق میں نہیں ہیں لہٰذا پاکستان کے پارلیمانی اور آئینی قوانین امریکہ کے فوری اہداف کے حل میں رکاوٹ ہیں۔ امریکہ و اتحادی ممالک کے لئے پاکستان کی موجودہ صورتحال دسمبر تک کھینچنا مشکل ہے لہٰذا امریکہ و مغربی ممالک نے تنگ آمد بجنگ آمد کی مانند فساد کا سہارا لیا جس کے لئے انہیں پاکستان نژاد مغربی شہریوں کی مدد حاصل ہے۔ فساد ایک ایسا جوا ہے ، جس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے فی الحال امریکہ و زرداری کی حکمت عملی میں سال دو سال کے لئے قومی ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام بھی ہو سکتا ہے جبکہ نگران سیٹ اپ یا حکومت بھی خوف فساد خلق کے باعث فروری 2014ءتک کام چلا سکتی ہے لہٰذا ڈاکٹر طاہرالقادری اور الطاف حسین کا لانگ مارچ پاکستان میں حملہ آور امریکی و اتحادی ممالک کی عوامی قوت کا مظاہرہ ہے۔ جس میں سادہ لوح عوام اور محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو شرکت سے اجتناب کرنا چاہئے۔
لانگ مارچ فساد کا آغاز ہے اگر اس میں ”نام نہاد شہیدوں کا لہو“ شامل ہو گیا تو یہ فساد لمبا ہو جائے گا۔ امریکہ و اتحادی ممالک کی فساد کے لئے سب سے بڑی کامیابی ڈاکٹر طاہرالقادری کی مشترکہ کاوش تھی جس میں پنجاب میں تبدیلی کے نعرہ باز سیاست کاروں کا حصہ بھی تھا۔ ان تبدیلی کے خواہاں سیاست کاروں کا ڈاکٹر صاحب اور الطاف حسین سے حکمت عملی کا اختلاف ہے مگر بنیادی طور پر ہدف ایک ہے۔ اس سب بندوبست کا فوری اور اولین ہدف پنجاب اور قومی سطح پر شریف برادران کا ووٹ بنک متاثر کرنا ہے۔ اگر اس میں الیکشن کی تاریخ اور نگران سیٹ اپ کے قیام میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو فساد کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا پہلا اور شاید آخری ”احسان“ ایم کیو ایم کو پنجاب میں لانا ہے۔ یہ کام اتنا مشکل تھا کہ خود ایم کیو ایم اپنی نظریاتی و سرکاری حلیف جماعتوں PTI، ق لیگ اور پی پی کی مدد سے بھی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ ایم کیو ایم کا اپنا صوبہ اور شہر کراچی روزانہ کی بنیاد پر خون ناحق کی ندی میں نہاتا ہے۔ جبکہ پنجاب میں بھی نگران سیٹ اپ اور نئے آئی جی پنجاب کی تعیناتی ہونا ہے۔ زرداری کے تیور تو نئے مسلم لیگ فنکشنل کے گورنر احمد محمود کی تعیناتی سے واضح ہیں جن کا بیان ہے کہ میرا کام نگران سیٹ اپ اور الیکشن میں ہو گا۔ اللہ خیر کرے، آثار اچھے نہیں۔