”شیخ الاسلام“ کی ”شیخیاں“

Jan 10, 2013

سید روح الامین

لگتا ہے کہ آئین کی پاسداری اور دوسروں کو آئین کی تعلیم دینے کے دعویدار کو اپنی ”طاقت“ کے گھمنڈ میں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ بذات خود آئین پر عمل کر رہا ہے یا آئین سے بغاوت؟ کچھ عرصہ قبل جس طرح سابق وزیراعظم گیلانی نے خط لکھنے کی بجائے آئین کے ”احترام“ کے دعوے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو آئین کی باقاعدہ تعلیم بھی دینا شروع کر دی تھی کہ میں خط لکھوں گا تو فلاں دفعہ مجھ پر لاگو ہو گی چونکہ اس وقت گیلانی صاحب ”اقتدار“ کے نشے میں ”مخمور“ اور صدر زرداری کی ”وفاداری“ میں پیش پیش تھے بہرحال آئین کے ”احترام“ کے بھرپور دعوﺅں کے باوجود گیلانی صاحب کو آئین سے انحراف کے جرم میں باقاعدہ سزا بھی ہوئی اور اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑے بالکل اسی طرح آپ جناب ”شیخ الاسلام“ قادری صاحب بھی آئین کے صفحات اٹھا اٹھا کر اور قسمیں کھا کھا کر حکومت کو آئین کے احترام کی تعلیم دے رہے ہیں اور خود آئین سے ”منحرف“ ہو رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ہمارا ایک کالم ”کیا میں بھی کبھی پارلیمنٹ کا رکن بن پاﺅں گا“ کثیرالاشاعت قومی اخبار نوائے وقت میں شائع ہوا تھا۔ اس میں ہم نے جو بیان کیا وہی باتیں آج قادری صاحب جارحانہ اور دھمکی آمیز لہجے میں حکومت سے کر رہے ہیں۔ ”میں“ سے ہماری مراد عوام تھا بلکہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز بھی یہی ہے کہ حکومت آئین کی پاسداری کرے۔ عام شہری کے حقوق دئیے جائیں۔ مسائل کو فوراً حل کیا جائے۔ کرپشن کا خاتمہ ہو بہرحال ”شیخ الاسلام“ نے فرمایا ہے کہ وہ چالیس لاکھ افراد لانگ مارچ میں شامل ہوں گے اور پنجاب حکومت کو جارحانہ انداز میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر میرے لانگ مارچ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو میں تو اسلام آباد کی طرف جا رہا ہوں گا ہو سکتا ہے کہ 20 لاکھ میرے ساتھ ہوں اور 20 لاکھ لاہور کا رخ کر لیں اور یہ کہ ان 20 لاکھ پر جو لاہور کا رخ کریں گے میرا اختیار نہیں ہو گا....“ سبحان اللہ، ”شیخ الاسلام“ بھی آئین کے ”احترام“ اور ”پاسبانی“ کے دعویدار ہیں مزید فرماتے ہیں کہ ”یہ جو ہمیں کہا جا رہا ہے کہ لانگ مارچ میں دہشت گردی کا خطرہ ہے لہٰذا میں بتانے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہ کہ اب ہم ”شہادت“ کے درجے سے سرفراز ہوں گے“ حیرت ہے کہ سرکار دو جہاں کی عزت و ناموس کا جو تحفظ کرے اسے ”شیخ الاسلام“ صاحب ”قاتل“ کہتے ہیں اور ایک آئینی و جمہوری حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کے راستے میں مارے جانے والوں کو ”شہادت“ کا درجہ دے رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ ہم ”شیخ الاسلام“ سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں آئین کی وہ شق بھی پڑھا دیجئے جس میں یہ لکھا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی شہری پاکستان میں آئے اور اپنی دولت کے بل بوتے پر آناً فاناً حکومت کو یہ دھمکی دے کہ میں آ رہا ہوں اور ”ایسے کرو ویسے نہ کرو“ اسلام مسلم سے ہے جس کے معنی سلامتی و امن کے ہیں اور ”شیخ الاسلام“ کی پنجاب حکومت کو 20 لاکھ کی دھمکی دینا اور 20 لاکھ کی اسلام آباد کو۔ حیرت ہے؟
اگر ”شیخ الاسلام“ اس بات کی بھی وضاحت کر دیں کہ آئین میں یہ کون سی شق ہے کہ عوام الناس کو جذباتی انداز میں بھڑکا کر ان سے لانگ مارچ کی آڑ میں زیورات پیسہ وغیرہ لے لیا جائے بعد میں جناب خود تو کینیڈا تشریف لے جائیں گے اور ان سادہ لوح بدنصیبوں کا کیا بنے گا۔ ہمیں بخوبی یاد ہے کہ ایک بار صدر زرداری بھی چندہ اکٹھا کرنے برمنگھم تشریف لے گئے تھے وہاں ابتدا بھی بلاول نے چندہ دے کر کی تھی اور پھر جذباتیت میں لوگوں نے خود مال دیا اور آج تک ہمیں نہیں معلوم وہ کہاں ہے وہ تو زرداری صاحب ہی جانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ”شیخ الاسلام“ نے بھی ابتدا اپنے اہل خانہ کے زیورات سے کی ہے۔ وہ لانگ مارچ کی ”نذر“ کر دئیے گئے ہیں اور اب عقیدت مند تو ویسے ہی اپنے ”پیر“ کی محبت میں اندھے ہوتے ہیں۔ ویسے ہمارا مشورہ ہے کہ شیخ الاسلام اگر لانگ مارچ کی آڑ میں جمع کی جانے والی رقم اپنے مبارک ہاتھوں سے ہی غربا، مساکین اور بیوگان میں تقسیم کر دیں تو نہ صرف آخرت سنور جائے گی بلکہ دنیا میں بھی عوام الناس کے دلوں میں حقیقی ”مقام“ پائیں گے۔ ”شیخ الاسلام“ نے پاکستان میں تشریف لاتے ہی ایم کیو ایم اور منہاج القرآن کو دو جسم اور ایک روح جو قرار دیا ہے اس کی ایک حد تک تو ہمیں سمجھ آتی ہے کیونکہ دونوں معزز صاحبان الطاف حسین صاحب اور ”شیخ الاسلام“ آج کل یورپ کی ریل میں سوار ہیں ویسے دونوں جسموں کی ایک روح یورپ میں اکٹھے رہنے سے ہی بنی ہے جب تک قادری صاحب وطن عزیز میں تشریف فرما تھے جسم بھی علیحدہ علیحدہ تھے اور روحیں بھی۔ بہرحال دونوں ہی آج کل یورپ کی ”رنگینیوں“ میں کھو کر پاکستانی عوام کے مسائل کے حل کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دونوں کا اندازِ خطابت بھی یکسانیت کا حامل ہے۔ جارحانہ اور ”صوفیانہ“۔ دونوں ہی ٹیلی فونک خطاب سے اپنے ”حواریوں“ کو نوازتے ہیں۔ دونوں صاحبان ہی عوام سے دور ہیں۔ ”باتیں“ دونوں ہی اچھی کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں کا ہدف بھی بالخصوص پنجاب حکومت ہے۔ اس لئے تو قادری صاحب نے 20 لاکھ افراد کی لاہور کا رخ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ الطاف حسین صاحب تو اکثر بانی پاکستان کی توہین کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ وہ انہیں بھی ”سیکولر“ اور ان کے ”پاکستان“ کو بھی ”سیکولر“ بنانے کے خواہاں ہیں اور شیخ الاسلام بھی اپنی مرضی سے اسلام کی شرع بیان فرماتے ہیں۔ اگر موجودہ پانچ سال میں ایم کیو ایم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ان کا کوئی ایک کارنامہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جو انہوں نے عوام کے لئے سرانجام دیا ہو۔ یہ خود حکومت میں ہیں۔ کیا بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان کی کوششوں سے ہوا ہے؟ کیا ریلوے کی بحالی میں ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے؟ کیا بے روزگاری اور مہنگائی پر ایم کیو ایم نے کبھی حکومت سے اتحاد ختم کیا ہے؟ ہم نے پورے پانچ سال میں عوام کے کسی ایک مسئلے پر بھی ایم کیو ایم کو حکومت سے علیحدہ ہوتے نہیں دیکھا۔ ہاں بار بار ان کے ذاتی ”تحفظات“ سامنے آتے پھر چند گھنٹوں کے بعد رحمن ملک یا وزیراعظم کے نائن زیرو یا لندن جانے سے ”تحفظات“ فوراً ختم ہو جاتے۔ ویسے الطاف حسین صاحب بھی جاگیردارانہ، وڈیرانہ، نظام کے خلاف ”باتیں“ بہت ہی اچھی کرتے ہیں مگر حکومت کے اندر رہ کر اور عوام سے تو وہ ویسے ہی بہت دور لندن تشریف فرما ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ 65 سے جاگیرداروں، وڈیروں، علماءاور پاکستان دشمن پارٹیوں نے وطن عزیز کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جب چاہتے ہیں عوام کے جذبات، امنگوں سے گھناﺅنے کھیل کھیلتے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک یہ عوام سے محبت کے دعویدار اربوں کی جائیدادیں بنا چکے ہیں اور ایک عام شہری آج بھی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ شیخ الاسلام کو ہمارا عاجزانہ مشورہ ہے کہ وہ آئینی طریقہ اختیار کریں کہ الیکشن میں حصہ لیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں پہلے کی طرح اب بھی یقین محکم ہو کہ ان کے حواریوں کے دل تو ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر ووٹ کسی اور کو دیتے ہیں
بہرحال 40 لاکھ جو افراد اب ان کے لئے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ قادری صاحب کو شاید علم ہو کہ ووٹ ان میں بھی صرف چند لاکھ کے ہی ہوں گے پھر شیخ الاسلام ”باتوں“ سے نہیں، تقریروں سے نہیں اپنے اعمال سے لوگوں کے دلوں میں گھر کریں اور حکومت کے خلاف بغاوت کرنا بھی چاہیں تو کربلا والوں سے سبق سیکھیں۔ سید الشہدا حضرت امام حسینؓ نے جب یزید کے خلاف اپنی آواز بلند کی تو صرف اپنے اہل خانہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے تھے۔ حضرت امام حسینؓ نے نہ ہی کوئی چندہ اکٹھا کیا نہ ہی دوسروں کو مدد کے لئے پکارا بلکہ چند اصحاب جو ساتھ تھے انہیں بھی فرمایا کہ واپس چلے جاﺅ پھر بھی قیامت کے روز تمہاری شفاعت کی سفارش کروں گا۔ آپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ ہمیں اقتدار نہیں صرف نانا کی شریعت چاہئے اور وہ قائم و دائم ہے اور قیامت تک رہے گی۔ جناب تو شیخ الاسلام ہی بہتر جانتے ہیں کہ سادہ لوح لوگوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہئے۔

مزیدخبریں