بھارت— اکھنڈ بھارت کے خواب سے نکلے!

Jan 10, 2014

آغا امیر حسین

میاں نواز شریف جب سے وزیراعظم بنے ہیں تواترکے ساتھ بھارت سے دوستی اور بھائی چارے کی باتیں کرتے چلے آ رہے ہیں حتیٰ کہ پچھلے دنوں انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی چیف منسٹر پنجاب جناب شہباز شریف کو بھی اس مشن پر بھارت بھیجا وہ چند کبڈی میچوں میںشمولیت کے بعد دلی میں وزیراعظم من موہن سنگھ جی سے ملے ان سے کیا بات ہوئی وہ تو معلوم نہیں البتہ جو بات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ شہباز شریف نے ایک خط نواز شریف صاحب کی طرف سے انہیں پہنچایا گویا وہ اتنا اہم اور خاص خط تھا کہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔خط پڑھ کر من موہن سنگھ جی نے پاکستان آنے کی دعوت تو قبول کر لی اب اگر وہ شہباز شریف صاحب کے ساتھ ہی اسی جہاز میں پاکستان آ جاتے تو بات اور ہوتی۔ اِدھر ہمارے وزیراعظم کوئی موقع ایسا ضائع نہیں جانے دیتے جس میں وہ دوستی اور قریبی تعلقات کا راگ نہ الاپتے ہوں اور ساتھ ہی ساتھ ’’برابری کی سطح‘‘ کا ٹانکا لگانا بھی نہیں بھولتے جبکہ بھارت تو ابھی تک اکھنڈ بھارت کے خواب سے ہی بیدار نہیں ہوا۔ برابری کی سطح کا ذکر کرتے ہوئے وہ بھارت کے سب سے بڑے محسن اور اسٹریٹجک پاٹنر امریکہ کو بھی لپٹ لیتے ہیںیہ بات اب کوئی راز نہیں ہے کہ بھارت اور امریکہ مل کر پاکستان میں انارکی پھیلانے اور تباہی و بربادی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دوستی اور وہ بھی برابری کی سطح پر بھارت کو منظور نہیں،بھارت کا کوئی ایک ہمسایہ پڑوسی ملک ایسا نہیں ہے جو بھارت سے خوف زدہ نہ ہو چند روز پہلے وزیر خارجہ ہند سلمان خورشید نے تو یہاںتک کہہ دیا کہ بھارت کی سلامتی کو سکم اور بھوٹان سے بھی خطرہ لاحق ہے! بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے جس طرح پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے اس کی وجہ بھی بھارت کا یہ خوف ہے کہ کہیں بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والی طاقتیں مضبوط نہ ہو جائیں۔ کشن گنگا ڈیم ہو، سرکریک، سیاچن یا پاکستان کا پانی روکنے کے دوسرے منصوبے ہوں ان سب منصوبوں پر بھارت اربوں، کھربوں روپے سالانہ خرچ کرتا چلا آ رہا ہے۔ جہاں تک عام بھارتی کا تعلق ہے وہ تو غربت کی سطح سے 60% فی صد سے زیادہ ہوچکی ہے۔ لیکن کسی ایک ماہر معاشیات، دانشور، ادیب، سائنس دان، سیاستدان، کانگریس یا کانگریس کی مخالف سیاسی جماعت، ہیومن رائٹس کی تنظیمیں ہوںیا ’’امن کی آشا‘‘ اور ’’جب سُر بلاتے ہیں‘‘ کے حوالے سے بھارت سے آنے والے وفد پاکستان آتے ہیں تو وہ بھولے سے بھی ان زیادتیوںکا ذکر نہیںکرتے جو پچھلے 67 سالوںمیں بھارت پاکستان کے ساتھ کرتا چلا آ رہا ہے، بھارتی فوج کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوںکو شہید کرچکے ہیں، بے شمار اجتماعی قبریں سامنے آچکی ہیں۔ 7 لاکھ سے زائد فوج اور دوسری پیرا ملٹری فورسز کے ہزاروں افراد وہاں کیا کر رہے ہیں؟ نریندر مودی صاحب جو چیف منسٹر گجرات ہیں ان کے مسلمان دشمن اقدامات سے ساری دنیا واقف ہے انہیں ابھی چند روز پہلے عدالتی فیصلے کے مطابق بے گناہ قرار دے دیا گیا ہے تاکہ وہ بھارت کے آئندہ وزیراعظم بن سکیں۔ گویا بھارت میں کسی منصب پر بیٹھا ہندو پہلے ’’ہندوتا‘‘کا حامی ہے اس کے نزدیک مسلمان، عیسائی، دلت، سکھ اور دوسرے مذہب کے ماننے والے کوئی حیثیت یا حقوق نہیں رکھتے۔ تقسیم برصغیر کے موقع پر تارا سنگھ وغیرہ کی کوتاہ بینی کی وجہ سے سکھوں سے مسلمانوں کا قتل عام کروایا گیا۔ جس لکیر کو مصنوعی قرار دیتے نہیں تھکتے وہ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے بنی ہے اس پر ایک دو نہیں بیسیوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں جب سکھوںکو یہ احساس ہوا کہ ان کے تمام مقدس مقامات تو پاکستان میں ہیں تب وہ اپنی لیڈر شپ کی غلطی کا برملا اظہار کرنے لگے تو انکے ساتھ بھی وہی کچھ کیا گیا جووہ مسلمانوں کے ساتھ کرتے چلے آ رہے ہیں پہلے تو مشرقی پنجاب کے تین صوبے بنائے ہماچل اور ہریانہ ہندو صوبے بقایا چھوٹا سا ایک ٹکڑا پنجاب کے نام سے سکھوں کی ریاست بنا دیا گیا اور چندی گڑھ کو تینوں صوبوں کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے موقع پر جب سکھوںکا قتل عام کیا گیا جسے سکھ کبھی بھلا نہ سکیں گے۔ بھنڈر والا کی تحریک کو ختم کرنے کیلئے بھارتی فوج نے جس بر بریت کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کاایک نمونہ گولڈن ٹیمپل میں وہ بلڈنگر ہے جو بھنڈر والے کا ہیڈ کوارٹر تھی۔ جلی ہوئی گولیوں سے چھلنی ہر آنے جانے والے کو بھارت کے ’’سیکولر‘‘ ہونے کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ ورلڈ پنجابی کانفرنس اور صوفی کونسل کے صدر فخر زمان صاحب نے بڑے خلوص اور محبت سے خالصتاً اپنی جیب سے خرچ اٹھاکر ایک بین الاقوامی امن کانفرنس 21-22-23 دسمبر 2013 ء لاہور میں منعقد کی اس میں مقررین نے ’’امن‘‘ کے حوالے سے گفتگو فرمائی لیکن اس کانفرنس میں بڑی تعداد میں شریک بھارتی مہمانوں نے حسب سابق ایک ہی راگ الاپا دونوں ملکوں کے عوام ایک ہی سوچ ایک ہی بولی، ایک ہی لباس رکھتے ہیں۔ یہ پنجاب دیس پر بڑا ظلم ہوگیا، یہ مصنوعی لکیر ختم ہونی چاہیے وغیرہ کسی ایک نے بھی بھولے سے مشرقی پنجاب کو تین ریاستوں میں تقسیم کرنے کی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی دانشور نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے تقسیم ہوئی کیا 67 سال یہ ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں تھے کہ تقسیم کی بات کرنے والوں کی سوچ غلط تھی۔ بھارت اپنے عمل کے ذریعہ یہ ثابت کرسکتا تھا کہ کشمیر سے لے کر مشرقی پاکستان جو اب بھارتی جارحیت کے سبب بنگلہ دیش ہے کے عوام بیک زبان کہتے تقسیم غلط ہوئی ہے ہم سب ایک ہیں۔ کلکتہ کا بنگالی ہندو ڈھاکہ کے بنگالی مسلمان سے کیوں شیرو شکر نہیں ہوا کہاں گئی بنگالی نیشنلزم کی دہائی۔ امن کی آشا کا درس دینے والے اپنے ملک میں انصاف اور عدل کی بات کریں، نیچی ذات کے ہندوئوں اور دوسرے مذاہب کا احترام کریں ’’ہندو تا‘‘ کی بات چھوڑیں۔
 وہاں کے ادیبوں، شاعروں، سیاستدانوںوغیرہ کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امن کا راستہ چین اور سکون کا راستہ ہے اور جنگ کا راستہ تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بھوٹان کا اگر ایک ووٹ ہے تو بھارت جو ایک بڑا ملک ہے کا بھی ایک ہی ووٹ ہے۔ مسلمانوں میں تو ’’میثاق مدینہ‘‘ کی بہترین مثال موجود ہے۔ بھارت کے حکمران اور دانشور اکھنڈ بھارت کے خواب سے باہر نکلیں، تاریخ میں پہلی بار اگر ایک بڑے ملک کی حکمرانی مل گئی ہے تو اس کی قدر کریں اپنے اور خطّہ کے غریب عوام کی خدمت کریں۔ انہیں آسانیاں بہم پہچانے کے بارے میں سوچیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم جائے۔ بھارت کی مختلف ریاستیں آزاد ملکوں کا روپ دھار لیں! راجے، مہارجواڑوں کے دور میں چلے جائیں۔

مزیدخبریں