’’مشرف ٹرائل ۔ عدالتی کیس یا ریفرنڈم‘‘

چند ہفتوں سے ہم لوگ اپنے حالات زندگی بہتر کرنے کیلئے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئے تھے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ کرپشن‘ بد امنی اور سردیوں میں گیس کی بندش کیخلاف ریلیاں نکل رہی تھیں ۔ انقلاب کے نعرے پھر سے سنائی دے رہے تھے کہ اچانک جنرل مشرف ٹرائل کیس کی سپیشل کورٹ نے ان کی حاضری کیلئے دبائو بڑھا دیا اور وہ ہسپتال پہنچ گئے۔ پھر کیا تھا ’’ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘۔ ہم شغل میلے کے شوقینوں نے بسنت سے پہلے ہی میلہ سجا دیا۔ سارے دکھ بھول کر ٹی وی چینلز پر محفلیں جمائیں‘ سازشی تھیوریوں کا خوب رنگ پھینکا اور پھر سابق صدر کو سزا وار ٹھہرانے بلکہ سزاکے تعین تک کیلئے مختلف علاقوں ‘ بازاروں اور سڑکوں پر کھڑے عوام کا فیصلہ بھی ریکارڈ پر لے آ ئے۔ پتہ نہیں دوسری قوموں میں جب اس طرح کے معاملات اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہوں توہمارے جیسی کاروائی کو کتنی پذیرائی ملتی ہے اور کچھ ہو نہ ہو ہمارے لوگوں کو آئین و قانون سے بہت ساری شناسائی وکلا ء تحریک ‘ سوئس کیسز ‘ ارسلان افتخار کیس‘ آرٹیکل 62, 63 کے عملی اطلاق و مذاق ‘اور اب اس کیس کے ذریعے ہو گئی ہے۔ کبھی نہ کبھی ان پر از خود عمل پیرا ہونے کی لگن بھی پیدا ہو ہی جائے گی۔اس کیس میں مندرجہ ذیل نقاط بحث کی جان اور عوام کو کنفیوز کرنے کا سبب بنے:۔     
ا۔کیا یہ مقدمہ آئین کے آرٹیکل 6  کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے یا غداری صرف دشمن کے ساتھ مل کر اپنوں کو نقصان پہنچانے سے بنتی ہے جس طرح تاریخ میں میر جعفر و میر صادق کے نام آتے ہیں۔ اس سوال کی بازگشت سینٹ تک پہنچ گئی ہے دیکھئے کیا تشریح سامنے آتی ہے۔     ۲۔کیا یہ مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت چلنا چاہیے یا موجودہ سپیشل کورٹ ہی ٹھیک ہے۔یہ سوچ تو سپیشل کورٹ بنانے سے پہلے آنی چاہیے تھی اور شائد آئی بھی ہو۔ ملزم کے وکلاء کا پینل موکل کے دفاع کیلئے کوئی بھی پوزیشن لے سکتا ہے مگر اپنے اپنے دائرہ اختیار میں فیصلہ تو مرکزی حکومت اور عدلیہ نے کرنا ہے۔ایک تو موجودہ کورٹ کو بے وجہ ڈس کریڈٹ نہیں کرنا چاہیے دوسرا آرمی ایکٹ میں اس کیس کی کہیں گنجائش ہی نہیں ہے۔ کسی فوجی کا ریٹائرمنٹ کے بعد صرف چار جرائم میں ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے جو خالصتاً آرمی سے متعلق ہیں۔ (i ( فراڈ سے بھرتی ہونا (ii) بھگوڑے (iii) فوج کے اندر بغاوت Mutiny ۔ یہ تین جرائم تمام عمر اس کا پیچھا کر سکتے ہیں جبکہ چوتھا جرم مالی بد عنوانی صرف تین سال تک یہاں قابلِ تعزیر ہوتا ہے۔اسکے علاوہ جس نوعیت کے بھی مقدمات ہوں ان کیلئے ریٹائرڈ فوجی ایک عام شہری بن کر ملکی قوانین اور عدالتوں کے دائرہ ِ اختیار میں آ جاتا ہے اور وہیں سے جزا و سزا پاتا ہے۔ اس کیس میں مشرف صاحب کا کسی طرح بھی کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔      
۳۔سابق چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب کے31  جولائی  2009کے فیصلے کو کیس کی بنیاد بنایا جاتا ہے جس میں انہوں نے3 نومبر  2007کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا ذمہ دار اکیلے پرویز مشرف کو ٹھہرایا ہے۔ پہلے تو اسکے قانونی پہلوئوں پر تحفظات سامنے آتے رہے اور اب بہت ساری آوازیں اسکے خلاف بھی اٹھ رہی ہیںجن کا کوئی نہ کوئی تو منطقی نتیجہ نکلے گا۔
۴۔اسکے علاوہ 12  اکتوبر 1999 کو اسی ملزم نے‘ اسی آئین کو توڑا اور اسی اعلیٰ عدلیہ نے بشمول سابق چیف جسٹس صاحب کے ‘اسے نہ صرف  Validate کیا بلکہ فقید المثال رعایات بھی دیں۔ اس بنا پر 3 نومبر 2007 کے جرم کو 12  اکتوبر 1999 کے جرم سے منسلک کرنے کی پر زور کوششیں جاری ہیں۔ مزید براں حکومت کا کسی ایک ملزم پر مقدمہ چلانے کا اختیار ‘پارلیمنٹ کا کردار و دیگر نقاط نے ایسا میدان سیٹ کر دیا ہے جس میں لا تعداد دنگلوں کی گنجائش ہے۔     
ماحول ایک قانونی نہیں سیاسی کیس کا بن گیا ہے بلکہ ایک ریفرنڈم کی تیاری کا سا سماں ہے۔ لہذا سیاسی پارٹیوں‘ فشاری گروہوں اور پاک آرمی کی لی گئی پوزیشنوں کے ادراک سے For and Against  کو جان لینا بھی سودمند ہوگا۔سب سے بڑی جماعت جو حکومتی پارٹی ہونے کے ناطے اس کیس کی سپانسر بھی ہے ان کا موقف انتہائی غیر واضح ہے۔ انکے مطابق وہ خود نہیں بلکہ آئینِ پاکستان اس مقدمے کامدعی ہے۔اس سے مجھے زمانہ ء طالب علمی کے ایک افیون زدہ ٹیچر یاد آرہے ہیں۔ وہ جب کمرہ امتحان میں نگران مقرر ہوتے تو آتے ہی بڑے زور سے کہتے ’’ کوئی نقل نہیں کریگا میں نہیں‘ اللہ دیکھ رہا ہے اور تم اسی کو جوابدہ ہوگے‘‘ اسکے بعد وہ کمرے سے باہر یا کسی کونے میں استراحت فرماتے اور بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔
دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے جنرل صاحب کواپنے پانچ برس کی حکومت کے دوران یاد ہی نہیں کیا ۔ اب بھی وہ اس کیس میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمران خان کا کوئی موقف نہیں وہ اگلے’’ دو سال‘‘ میں ممکنہ طور پر ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کیلئے صفیں درست کر رہے ہیں۔ایم کیو ایم کھل کر بلکہ مہاجری نعرہ مار کر مشرف صاحب کے ساتھ آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ق لیگ نہ صرف انکے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے بلکہ چودھری صاحب نے تو خود سہرا باندھ لیا ہے اور دعوتِ عام دے رہے ہیں’’ کنے کنے جانا ایں بلُو دے گھر‘‘ بہت ساری پارٹیاں اور گروپس لائین میں لگ کرٹکٹ کٹوا رہے ہیں۔ دیگر پارٹیاں ‘ فشاری گروہ اور پاک آرمی زیادہ تر عدالتی کاروائی کے حامی ہیں جو کہ ایک متوازن سوچ ہے۔ان حالات میں باقی کتنے اور کون سے لوگ رہ جاتے ہیں جو مشرف کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے ہیں ؟ سنجیدگی سے حساب کتاب کرنے کی ضرورت ہے ۔ میرے خیال میں ہمیں من حیث القوم اپنی توانائیاں تماش بینی سے ہٹا کر اصل عوامی مسائل‘ بشمول سوسائٹی بلڈنگ (تعمیرِ معاشرہ)کی طرف مرکوز کر دینی چاہئیں۔ حکومت ایمانداری سے کیس کو نکھارنے میں مدد دے‘ عدالتیں اپنا ٹرائل پروسیجر اور فیصلے شفاف رکھیں‘ آرمی اس معاملے میں گھسیٹے جانے سے محتاط رہ کر عدلیہ کی اعانت کرے‘ میڈیا ذمہ داری کا ثبوت دے اور سب مل کر عدالتی فیصلے کا انتظار کریں۔ اس سارے کیس کے دوران کسی کی طرف سے بھی بد نیتی ‘ غلط کاری یا بے صبری کا مظاہرہ ہوا تو اس کے نقصانات بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔ البتہ ایک سوال کہ زرداری صاحب نے یہ کیس کیوں نہ چھیڑا اور میاں صاحب نے کیوں نہ چھوڑا؟ کا جواب اگر کسی کو مل جائے تو قوم کی آئندہ کیلئے رہنمائی ہو گی۔

کرنل (ر) زیڈ ۔آئی۔فرخ....نئے راستے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...