پاکستان بھارت سے 500 کے بجائے 2000 میگاواٹ بجلی خریدنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں بھارت کو آگاہ بھی کردیا گیا ہے چنانچہ بہت جلد دونوں ممالک کے مابین دو ہزار میگاواٹ بجلی کے معاہدے پر دستخط ہو جائینگے۔ اس سلسلہ میں ایک بھارتی اخبار میں شائع ہونیوالی خبر کی وزارت پانی و بجلی کے اعلیٰ حکام نے بھی تصدیق کر دی ہے۔
پاکستان ہنوز انرجی کے بدترین کرائسز سے گزر رہا ہے اور وزیر پٹرولم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد سمیت پنجاب بھر میں سی این جی سٹیشنوں کو تین ماہ کیلئے گیس فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان حالات میں حکومت اس بحران پر قابو پانے کیلئے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے نندی پوری پاور پراجیکٹ کی تکمیل ہو رہی ہے۔ چین سے نیوکلیئر پاور پلانٹ کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ سولر اور ونڈ انرجی پر بھی حکومت توجہ دے رہی ہے، کوئلہ سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے بن رہے ہیں لیکن ان منصوبوں پر دو سے تین سال کا وقت درکار ہے۔ ایران سستے نرخوں پر پہلے ہی ایک ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کر رہا ہے وہ مزید بجلی کی فراہمی کی پیشکش کر رہا ہے۔ حکومت نے اب بھارت سے 500 کے بجائے 2000 میگاواٹ بجلی خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ پاکستان بھارت کے مابین شدید نوعیت کے تنازعات موجود ہونے کے باعث پائیدار نہیں ہو سکتا۔ تاہم نوازشریف حکومت بھارت سے بجلی کے معاہدے کو بڑھانے میں کامیاب ہو گئی ہے‘ تو اسے کشمیر کے مسئلے کا بھی اسی طرح کوئی حل نکالنا چاہیے۔ اس وقت بجلی سے زیادہ مسئلہ کشمیر اہم ہے اس کے حل کے بغیر پاکستان بھارت تعلقات اور تجارت کی حیثیت کچے دھاگے سے زیادہ نہیں جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سیمنٹ کی تیاری کیلئے اجزا بھارت سے منگوانے کی اجازت دی، افسوس کا مقام ہے پاکستان بھارت کو سیمنٹ برآمد کرتا ہے اور اب اسے سیمنٹ کی تیاری کے اجزا بھارت سے منگوانا پڑے ہیں، ایسے معاملات میں دشمن پر انحصار خود فریبی ہے۔ حکمران پہلے مسئلہ کشمیر حل کریں‘ اسکے بعد بھارت کے ساتھ بجلی کے معاہدوں اور تجارت کے بارے میں سوچا جائے۔