وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چودھری عابدشیر علی نے کہا ہے کہ خیبر پی کے میں صوبائی وزراء بجلی چوری کرنیوالوں کی سرپرستی کرتے ہیں‘ خیبر پی کے میں بجلی چوری زوروں پر ہے‘ پاکستان تحریک انصاف کے وزراء بجلی پر ڈاکہ مار رہے ہیں‘ عمران خان دھرنے چھوڑیں‘ بجلی چوری روکیں۔ گزشتہ روز واپڈا ہائوس پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی وزراء خیبر پی کے اسمبلی کے ارکان آکر پیسکواہلکاروں اور پیسکو چیف کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ اگر اب ایسا ہوا تو پیسکو اہلکاروں کی جانب بڑھنے والے ہاتھ کاٹ دیئے جائینگے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی وزیر اطلاعات کے علاقہ میں 90 فیصد سے زائد لائن لاسز ہیں مگر صوبائی وزیر ڈیڑھ ارب روپے سے زائد واجب الادا بلوں کی ریکوری کے بجائے بجلی چوروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ انکے بقول بنوں میں 90 فیصد سے زائد بجلی چوری ہوتی ہے‘ لوگ سسٹم میں نہ آئے تو ایک ہفتے بعد بنوں کی بجلی کاٹ دی جائیگی۔ دوسری جانب وزیر اطلاعات خیبر پی کے نے وزیر مملکت عابد شیرعلی کی پریس کانفرنس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر بنوں کی بجلی بند کی گئی تو ہم پنجاب کی بجلی بھی بند کر دینگے۔ انکے بقول بجلی چوری پر قابو پانا اور ریکوری کرنا پیپکو حکام کی ذمہ داری ہے۔ عابد شیرعلی کو خیبر پی کے کے لوگوں کو بجلی چور کہنا مہنگا پڑیگا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ لائن لاسز سندھ میں ہیں‘ جو 105 بلین روپے کے ہیں۔ بجلی صوبہ خیبر پی کے کی پیداوار ہے‘ پنجاب ہماری پیداوار پر رعب نہ جمائے ۔
گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے جاری توانائی کے بحران میں جہاں بجلی کی پیدوار بڑھانے اور طلب کے حساب سے بجلی مہیا کرنے میں حکومتی انتظامی کوتاہیوں کا عمل دخل ہے‘ وہیں دستیاب بجلی کی کھلے عام چوری اور صوبوں میں بجلی کی غیرمساویانہ تقسیم کے باعث بھی توانائی کے بحران کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ افسوسناک یہ صورتحال ہے کہ زیادہ تر اقتدار کے ایوانوں اور اسمبلیوں میں بیٹھے سیاست دان اور بااثر اشرافیہ طبقات ہی بجلی بلوں کے نادہندہ اور بجلی چوری میں ملوث ہیں‘ نتیجتاً دستیاب بجلی کا ناجائز استعمال بھی ہو جاتا ہے اور واپڈا کی جیب میں بھی کوئی دھیلا نہیں جاتا چنانچہ نجی تھرمل پاور کمپنیوں کو انکی فراہم کی جانیوالی بجلی کی ادائیگی نہیں ہوتی تو وہ بجلی کی پیداوار بند کر دیتی ہیں جس سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی صورتحال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے۔ ایک تو حکمرانوں اور سیاست دانوں کے مفاد پرست طبقات کی عاقبت نااندیشی سے ملک میں آبی ذخائر اور وسائل ہونے کے باوجود کوئی نیا ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا جس سے ہائیڈل بجلی کی پیداوار میں کوئی اضافہ نہ ہو پایا اور منگلا‘ تربیلا ڈیم بھی اپنی تہہ میں بے پناہ سلٹ جمع ہونے کے باعث مطلوبہ بجلی پیدا کرنے کی استعداد سے محروم ہو گئے جبکہ بجلی کی ڈیمانڈ پوری کرنے کیلئے متبادل تھرمل بجلی کے حصول کیلئے نجی تھرمل پاور کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں کمیشن‘ کک بیکس اور پھر مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کے نتیجہ میں تھرمل بجلی کی پیداوار کم ہوتی رہی۔ ان حکومتی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں ہی توانائی کے بحران کا آغاز ہوا جسے بعدازاں ناسور کی طرح پھیلتے ہوئے بجلی چوری کے کلچر نے مزید گھمبیر بنا دیا۔
اس امر کی تو ہر دور حکومت میں نشاندہی ہوتی رہی ہے کہ صوبہ خیبر پی کے کے قبائلی ہی نہیں‘ بندوبستی علاقوں میں بھی پورے دھڑلے کے ساتھ کنڈے لگا کر بجلی چوری کی جاتی ہے اور جہاں جائز بجلی استعمال ہوتی ہے‘ وہاں بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی روایت قائم ہے۔ مشرف حکومت اور پیپلزپارٹی کے ادوار کے دوران کنڈے لگا کر بجلی چوری کرنے کی شکایات کراچی سے بھی موصول ہوتی رہی ہیں‘ جہاں مخصوص علاقوں میں حکومتی طاقت اور بندوق کے زور پر پوری دیدہ دلیری کے ساتھ بجلی چوری کی جاتی اور بلوں کی ادائیگی سے بھی انکار کیا جاتا رہا۔ یقیناً پنجاب اور بلوچستان کے متعدد علاقوں میں بھی طاقت و اختیار والے طبقات کی جانب سے بجلی چوری کے کلچر کو فروغ دیا جاتا رہا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ واپڈا اہلکاروں اور افسران کی ملی بھگت سے ہی بااثر لوگوں بشمول سیاسی خاندانوں کے صنعت کاروں اور جاگیرداروں کو اپنی ملوں‘ فیکٹریوں‘ دوسرے کاروباری مراکز اور ٹیوب ویلوں کیلئے چوری کی بجلی استعمال کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں بااثر گھریلو صارفین بھی بجلی چوری کی لت میں مبتلا رہے ہیں جبکہ بجلی چوری کا کلچر موجودہ حکومت کے تادیبی اقدامات کے دعوئوں کے باوجود آج بھی فروغ پا رہا ہے۔ اسی طرح متعدد سرکاری اور نیم سرکاری محکموں اور اداروں میں بھی بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے۔ اربوں‘ کھربوں روپے کی بجلی استعمال ہونے کے باوجود اسکی قیمت کی مد میں ایک ڈھیلا بھی واپڈا کے خزانے میں جمع نہ ہو سکا۔ اگر دستیاب بجلی بھی بااثر اشرافیہ طبقات کی جانب سے شیرِمادر سمجھ کر مالِ مفت کی طرح ہضم کی جارہی ہو تو پھر ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کیلئے کون سی تدبیر کارگر ہو سکتی ہے۔ یقیناً اس تناظر میں ہی جب موجودہ حکومت نے قوم کو توانائی کے بحران سے نکالنے کا چیلنج اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا تو بجلی چوروں اور نادہندگان کیخلاف کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اگرچہ ان اصلاحی اقدامات کی زیادہ تر زد میں ابھی تک عام صارفین ہی آئے ہیں جن پر پہلے بھی لائن لاسز کا بوجھ ڈالا جاتا رہا ہے اور اب بجلی کے میٹروں میں پائے جانیوالے معمولی سے نقص پر متعلقہ صارفین کو پیشگی اطلاع دیئے بغیر انہیں بجلی چور ظاہر کرکے ان پر بجلی کے اضافی بلوں کی بھرمار کی گئی ہے جبکہ انکی دادفریاد سننے والا بھی کوئی نہیں۔ اسکے برعکس وزارت پانی و بجلی نے اب بجلی چوری کرنیوالے بااثر طبقات پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر مفاد پرست طبقات کی جانب سے حکومت کے ساتھ محاذآرائی کی فضا پیدا کرکے طوفان اٹھانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کہ بجلی چوری کیخلاف اقدامات کی مزاحمت میرٹ‘ شفافیت اور کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کی دعوے دار تحریک انصاف کی جانب سے کی جا رہی ہے اور اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی خاطر پنجاب کی بجلی بند کرنے تک کی دھمکی دے دی گئی ہے جو بذاتِ خود عمران خان کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر انہوں نے خیبر پی کے حکومت میں کرپشن کے الزامات میں اپنی اس وقت کی اتحادی جماعت کے تین وزراء کو فارغ کرنے کا جرأت مندانہ اقدام اٹھایا تھا تو کیا اب بجلی چوروں کی سرپرستی کرنیوالے اپنی صوبائی حکومت کے ارکان کیخلاف ایسا ہی ایکشن لینا انکی ذمہ داری نہیں؟ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتی لیڈرشپ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت میں بھی پیش پیش ہے اور اب وہاں بجلی چوروں کیلئے بھی ڈھال بن رہی ہے اس لئے اس پارٹی سے ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے معاملہ میں کسی کردار کی ادائیگی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے‘ اگر بجلی چوری کے تدارک کے اقدامات میں کہیں بے ضابطگی نظر آئے تو بے شک ان اقدامات کو درست کرنے کا تقاضا کیا جائے مگر اس جواز کے تحت کہ فلاں صوبے میں لائن لاسز ہم سے زیادہ ہیں‘ بجلی چوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں نکلتا۔ بجلی چور چاہے جہاں بھی موجود ہیں اور جس بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان کیخلاف بے لاگ قانونی کارروائی ہونی چاہیے اور اسی طرح تمام ڈیفالٹروں سے بھی بلاامتیاز وصولی کی جانی چاہیے تاکہ آئی پی پیز کو ادائیگیوں میں کسی قسم کی تاخیر نہ ہونے پائے۔ اگر ایسے اصلاحی اقدامات پر سیاست کی جائیگی تو پھر ملک کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اس حوالے سے پانی اور بجلی کے وزیر مملکت کو بھی اپنی وزارت کے اقدامات میں کسی جانبداری‘ ناانصافی یا انتقامی سیاسی کارروائی کا تاثر پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے‘ وہ اصلاحی اقدامات ضرور اٹھائیں مگر شیر کی دھاڑ سے کسی کو خوفزدہ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ملک اس وقت کسی سیاسی محاذآرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔