آج خبروں کی بھرمار ہے تو قارئینِ کرام! کیوں نہ آج اِدھر، اُدھر کی خبروں سے کالم کوسجایا جائے۔
’’عدالتی ترانہ فارسی زبان میں‘‘
خبر ہے کہ ’’ ایران کی سُپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب تصدّق حسین جِیلانی کا ’’انصاف سب کے لئے‘‘ کے عنوان سے لکھے ہُوئے عدالتی ترانے کا فارسی زبان میں ترجمہ کرا لِیا ہے۔ محترم چیف جسٹس نے اپنی شاعری کو ’’خاموش محبت‘‘ کی طرح چھپا رکھا تھا، لیکن عدالتی ترانہ لِکھ کر اُن کی شاعری طشت ازبام ہو گئی۔ چیف صاحب نے عدالتی ترانہ آسان اور عام فہم اردو میں لِکھا ہو گا تبھی تو ایرانی سُپریم کورٹ کو اس کا فارسی زبان میں ترجمہ کرانا پڑا ’’شاعرِ شاہنامہِ اسلام‘‘ جناب حفیظ جالندھری مرحوم نے پاکستان کا قومی ترانہ فارسی زبان میں لکھا۔ اِس ترانے میں صِرف لفظ ’’کا‘‘ اردو زبان کا ہے۔ بہرحال ایرانی سُپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا لِکھا ہوا عدالتی ترانہ فارسی زبان میں ترجمہ کرا کے پاکستان سے محبت کا ثبوت دِیا ہے۔
’’مہاجرت میں سیاست کا کاروبار‘‘
خبر ہے کہ سینٹ آف پاکستان میں ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان جناب الطاف حسین کے اِس بیان پر اُلجھ پڑے کہ ’’جنرل (ر) پرویز مشرف کو محض ’’مہاجر‘‘ ہونے کی وجہ سے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔ اُدھر محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ ’’جِن لوگوں کو جنرل (ر) پرویز مشرف نے حرام کھِلایا، وہی اُسے ’’مہاجر‘‘ قرار دے کر بچانا چاہتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ ’’کیا مَیں اور جنرل (ر) مسلم لیگ مہاجر نہیں تھے؟۔ چونکہ اُن کا ہم سے کوئی مفاد وابستہ نہیں تھا اِس لئے ہماری حمایت میں اُن کی زبانیں بند رہِیں‘‘۔ جناب الطاف حسین 24 سال سے لندن میں ’’مہاجر‘‘ کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا…؎
’’ مہاجرت میں سیاست کا کاروبار نہ کر ‘‘
’’عمران خان اورمحمود غزنوی‘‘
جناب عمران خان نے کہا ہے کہ ’’جِس طرح محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملے کئے تھے، مَیں اُسی طرح بار بار کراچی کے دورے کروں گا اور اب میری پوری توجہ سِندھ پر ہو گی‘‘۔ جناب عمران خان کے لئے مناسب تھا کہ وہ سندھ کے حوالے سے خود کو محمد بن قاسم قرار دیتے جِس نے سندھ پر صِرف ایک ہی حملہ کِیا اور پھرسندھ ’’باب اُلاسلام‘‘ کہلایا، محمود غزنوی نے ہندوستان پر17حملے کئے اور وہ سومنات کا بُت توڑ کر پھر ہندوستان کبھی نہیں آیا۔
’’جنابِ بھٹو کی تاریخِ پیدائش؟‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رُکن سیّد یوسف جعفری نے (جو پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد، پارٹی چھوڑ کر سیاست سے بھی تائب ہو گئے تھے) مجھے ٹیلی فون پریاد دِلایا کہ ’’مولانا کوثر نیازی مرحوم کی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ کی اشاعت کے بعد قومی اخبارات میں معروف منجم ایم اے ملک کا ایک بیان شائع ہُوا تھا، جِس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’جناب ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخِ پیدائش 5 جنوری 1929ء نہیں بلکہ 16جولائی 1929ء ہے۔ سیّد یوسف جعفری صاحب نے بتایا کہ ’’جناب ایم اے ملک نے دعویٰ کِیا تھا کہ اُن کے پاس بھٹو صاحب کے ہاتھ کا پرنٹ موجود ہے، جِس پر خود بھٹو صاحب نے اپنی تاریخِ پیدائش 16 جولائی 1929ء لِکھی تھی‘‘۔ بھٹو صاحب کی تاریخِ پیدائش 5 جنوری کے بجائے 16جولائی سمجھی جائے تو اُن کا عِلم نجوم کے حساب سے اُن کا "star" Capricorn جدّی کے بجائے " "Cancer" (سرطان) تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا star بھی سرطان ہی تھا۔ بہر حال یہ بات متنازع نہیں ہے کہ جنابِ بھٹو کو پھانسی 4 اپریل 1979ء کو دی گئی تھی۔
’’اب لاہور جانے کی ضرورت نہیں‘‘
60ء کی دہائی میں سرگودھا میں کونسل مسلم لیگ کے ملک شیر محمد اعوان (مرحوم) مالک سینئر ڈرائی کلینرز‘‘ میرے اور موجودہ سُپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ میاں جمیل اختر سمیت ہمارے کئی دوستوں کے سُوٹ، اُدھار ڈرائی کلین کر دیا کرتے تھے۔ ملک صاحب نے ڈرائی کلیننگ کی جدید ترین مشین لگائی تو اِس مضمون کے پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کرائے کہ ’’اب لاہور جانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہم نے ڈرائی کلیننگ کا اعلیٰ انتظام سرگودھا میں ہی کر دِیا ہے‘‘۔ انفارمیشن گروپ کے ایک سینئر اور بہت ہی زیادہ پڑھاکو آفیسر پروفیسر سلیم بیگ ( جِن کا 1947ء امرتسر میں آدھے سے زیادہ خاندان شہید ہو گیا تھا) اڑھائی سال پہلے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے ایڈیشنل پریس سیکرٹری تھے، جب اُنہیں اور اُن کی اہلیہ کو، فیصل ٹائون لاہور میں ان کی والدہ صاحبہ کے گھر پر مسلح ڈاکوئوں نے لُوٹ لِیا تھا ۔نئے سال کی آمد پر اُن کے گھر، واقع آئی ایٹ سیکٹر اسلام آباد میں ڈاکوئوں نے اُن کی اور اُن کی اہلیہ کی تمام جمع پونجی، زیورات اور قیمتی سامان لُوٹ لِیا۔ وفاقی پولیس فی الحال ڈاکوئوں کو پکڑنے میں ناکام ہے۔ بہرحال یہ بات تو طے ہو گئی ہے کہ پروفیسر سلیم بیگ اور اُن کے اہلِ خانہ کو ڈاکوئوں سے لُٹنے کے لئے اب لاہور جانے کی ضرورت نہیں۔
’’اُستادِ موسیقی کی بددُعائیں‘‘
9جنوری کو شائع ہونے والا میرا کالم ’’بیمار پرویز مشرف علاج بذریعہ موسیقی‘‘ پڑھ کر لاہور سے میرے چھوٹے بھائی سلیم چوہان نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’جنرل (ر) پرویز مشرف کا علاج بذریعہ موسیقی نہیں ہو سکتا، کیونکہ سابق صدرکے اُستادِ موسیقی (اندرون بھاٹی دروازہ لاہور کے) ماسٹر بشیر کا دو سال قبل انتقال ہو چکا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کئی سالوں تک اُستاد بشیر کو پورے پروٹوکول کے ساتھ ایوانِ صدر میں مہمان ٹھہرا کر اُن سے موسیقی کی تعلیم حاصل کِیا کرتے تھے، پھر بے اعتنائی برتنے لگے۔ سلیم چوہان کا بیان ہے کہ ’’استاد بشیر نے ایک دِن میری موجودگی میں جناب پرویز مشرف کا نام لے کر اِس طرح کی بددُعائیں دی تھی کہ’’جا تُوں بے سُرا ہو جاویں! جا تیرا ہارمونیم ٹُٹ جاوے!۔ اور جا تیرا طبلہ پاٹ جاوے!‘‘ تو قارئینِ محترم! اب مَیں کیا کر سکتا ہوں؟ مَیں نے تو بڑے خلوص سے (جناب پرویز مشرف سے ہمدردی کی بنیاد پر کالم لِکھا تھا۔