عفووحلم کے پیکر(۵)

Jan 10, 2015

رضا الدین صدیقی

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے اونٹ خرید ے اوریہ طے فرمایا کہ اس کے عوض دخیرہ کے مقام پر پیدا ہونے والی عمدہ کھجوریں دی جائیں گی۔ آپ واپس تشریف لائے لیکن اتفاق یہ ہوا کہ اس وقت فوری طور پر دخیرہ کی کھجوریں میسر نہ آسکیں۔آپ اس اعرابی کے پاس واپس تشریف لے گئے اوراسے فرمایا:اے اللہ کے بندے ہم نے تیرے اونٹوں کے عوض دخیرہ کی کھجوریں طے کی تھیں لیکن ہمیں وہ کھجوریں مل نہیں سکیں۔اس اعرابی نے شور مچادیا وَاَغَدْرَاہ وَاَغَدْرَاہ ، ہائے یہ تو دھوکہ بازی ہے ،یہ تو دھوکہ بازی ہے۔صحابہ کرام نے اسے جھڑکا ،لیکن آپ نے صحابہ کرام کو منع فرمایااورکہا کہ اسے کچھ نہ کہو، حقدار کو بات کرنے کی پوری اجازت ہے ۔آپ نے یہ بات تین بار دہرائی ۔پھر جب آپ نے دیکھا کہ وہ اعرابی اس عذر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہاتو آپ نے اپنے ایک صحابی کو حکم دیا کہ وہ خولہ بنت حکیم بن امیہ کے پاس جائے اورانھیں کہے کہ اگردخیرہ کی کھجوروں کا وسق (ایک پیمانہ)ہو تو ہمیں مستعار دے دو۔جس وقت ہمارے پاس اس قسم کی کھجوریں آئیں گی ہم تمہیں اداکردیں گے۔
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کو پیغام ملا توانہوںنے عرض کی کہ اس قسم کی کھجوریں میرے پاس ہیں۔آپ اس شخص کو میرے پاس بھیج دیں میں اس کے حوالے کردوں گی۔آپ نے اس صحابی کو فرمایا:اس شخص کو اپنے ساتھ لے جائو اوراس کا جتنا بھی حق بنتا ہے اسے ادا کردو۔ چنانچہ انھوںنے حضرت خولہ سے کھجوریں لے کر اس شخص کے سپرد کردیں۔کھجوریں لینے کے بعد وہ شخص واپس لوٹا ۔اس نے دیکھا کہ آنجناب اپنے صحابہ کرام کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اس نے بے ساختہ بلند آوازسے کہا:’’اللہ تعالیٰ آپ کو جرائے خیر عطاء فرمائے بے شک آپ نے میرا حق پورا پورا اداکردیا ہے اوربڑی ہی عمدگی کے ساتھ اداکردیا ہے‘‘۔(سبل الھدی)
ابوسفیان نے بڑی شدومد سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ۔ہمیشہ اسلام دشمنی میں پیش پیش رہا ،ہجرت مدینہ کے بعد بھی اس نے پوری کوشش کی کہ مسلمانوں کے قدم جم نہ سکیں ،لیکن وہ خائب وخاسر ہوا۔فتح مکہ کے بعد اسے گرفتار کرکے آپ کی بارگاہ میں پیش کیاگیاتو آپ اسے کڑی سزا دینے کی بجائے بڑی شفقت سے پوچھا:’’اے ابوسفیان تیرا بھلاہو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تو اللہ کومان لے‘‘اس نے انتہائی شرمسار ہوکر کہا’’میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے حلم والے ہیں آپ کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں آپ کتنے کریم ہیں کہ مجھ جیسے مجرم کو بھی اپنی شان رحمت سے نواز رہے ہیں۔(السیرۃ النبویہ،زینی دحلان)

مزیدخبریں