ہم نے سنا تھا کہ جس گھر میں بیری کا درخت ہو وہاں پتھر آتے ہیں مگر بابا محمد یحیٰی خان نے کسی دوست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں بیری کا درخت ہو وہاں پتھر ضرور مارو اور بیر گریں تو ضرور کھاﺅ۔ ہم بھی لڑکپن میں اپنے گاﺅں کی زمینوں پر جاتے تھے اور بیری کے درخت پر چڑھتے اور بیر کھاتے۔ تب ہمارا خیال تھا کہ دنیا میں ایک ہی پھل ہے اور وہ بیر ہے۔ ایک سردار جی کچھا پہنے ہوئے بیری کے درخت پر بیٹھے بیر کھا رہے تھے۔ سردار نے کہا کہ ہم تو صرف دو ہی اچھے کام کرتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور اچھا پھل کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بابا جی نے کہا کہ جس گھر میں لڑکیاں ہوں اور آپ کے گھر میں کوئی لڑکا ہو تو وہاں رشتہ ضرور مانگنے جاﺅ تاکہ لڑکیوں والے کو عزت محسوس ہو اور جس گھر میں بھینس ہو وہاں لسی مانگنے ضرور جاﺅ۔ جس بھینس کی لسی محلے والے پیتے ہوں وہ دودھ زیادہ دینے لگتی ہے۔ جس گھر والوں کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ رزق حلال کماتے ہیں تو ان کے گھر کھانا ضرور کھاﺅ۔
پاکستان میں تو ایسا گھر تلاش کرنے میں مشکل ہو گی تو ناچار ہمیں بابا جی کے گھر ہی جانا پڑے گا۔ میں کل ان کے گھر گیا اور یہ بھی درخواست کی کہ میں رات کا کھانا بھی کھاﺅں گا۔ ایک بات اور بھی زبردست ہے کہ کھانا خود اپنے ہاتھ سے بابا جی پکاتے ہیں۔ ایسا لذیذ کھانا میں نے اپنے گھر کے علاوہ اور کہیں نہیں کھایا۔ ان کے پاس ملازم ہیں جنہیں وہ اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ کھانا پکانے کے بعد کھانے کے لئے بچوں کا انتظار کرنے لگتے ہیں اور آواز دیتے ہیں کہ بچو بابا جی کو بھوک لگی ہے۔ کھانا لاﺅ۔ وہ بابا جی سے بہت محبت کرتے ہیں مگر ان سے زیادہ بابا جی بچوں سے محبت کرتے ہیں۔
بابا جی ملامتی صوفی ہیں جبکہ وہ جو اپنے آپ کو صوفی کہتے ہیں علامتی صوفی ہیں۔ وہ جو اپنے آپ کو ملامت کر سکتا ہے۔ وہ بہت بڑا انسان ہوتا ہے۔ ان کے لئے انکسار سب سے بڑا افتخار ہے۔ عاجزی ہی بندگی ہے۔ جب رحمت اللعالمین محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمدﷺ معراج پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے فرشتوں سے کہا کہ میں اللہ کے دربار میں وہ چیز لے کے جا رہا ہوں جو ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ فرشتے حیران ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کے حضور عاجزی لے کے جا رہا ہوں اور عاجزی اللہ کے پاس نہیں ہے۔ یہ صرف انسان کی صفت ہے۔
بابا جی ایک کمتر آدمی کے لئے بھی جو مہمان ہو کہتے ہیں کہ میں آپ کے قدموں کی خاک ہوں جبکہ ان کے لئے اس مہمان کے دل میں اتنی عزت ہوتی ہے جو کسی کے لئے نہیں ہوتی۔ وہ کھانا کھاتے ہوئے اپنے ملازم نوجوانوں کے لئے بھی اسی چمچ میں خوراک ڈال کر کھلاتے ہیں جس سے خود کھا رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر اسی چمچ سے خود کھاتے ہیں۔ بابا جی زمین پر سوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ نجانے کتنے ہی لوگ ہیں جو زمین پر سوتے ہیں۔ جو مزا زمین پر سونے میں ہے بہترین پلنگ پر سونے میں نہیں ہے۔
میں بابا جی کو روحانی آوارہ گرد کہتا ہوں وہ ساری دنیا میں پھرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں قابل ذکر قبر ایسی نہیں جہاں بابا جی نہ گئے ہوں۔ پوری دنیا میں سفر کرنے کے حوالے سے انہیں عالمی آوارہ گرد کہا جا سکتا ہے۔ سفر وہی ہے جس طرح بابا جی کرتے ہیں۔ کسی مفاد کے لئے یا کسی مقصد کے لئے سفر کچھ اور ہوتا ہے۔ بغیر کسی مفاد اور مقصد کے سفر کچھ اور ہوتا ہے۔
بابا جی نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ شاندار اور حیرت انگیز.... مگر یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ باقاعدہ پڑھے بھی ہیں یا نہیں۔ ان کے لئے کئی تعلیمی اداروں میں تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ ہمیشہ تخلیقی کاموں پر تحقیقی کام ہوتا ہے۔ ”پیا رنگ کالا“، ”کاجل کوٹھا“ وغیرہ۔ وہ ہمیشہ کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ نور کا رنگ بھی کالا ہے۔ نور اور روشنی میں فرق ہے جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ انوار اور اسرار کے امتزاج سے جو چیز پراسرار نہیں ہوتی وہ پرکشش بھی نہیں ہوتی۔
سرخ و سفید رنگ کی اپنی کشش ہے مگر گندمی رنگ خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مشرق میں سرخ و سفید رنگ مغرب کے سرخ و سفید سے مختلف ہے۔ مشرق کا رنگ سانولا ہے۔ محبت کا رنگ بھی یہی ہے۔ اسی لئے محبوب کو پنجابی میں سانول کہتے ہیں۔
سانول موڑ مہاراں اور پیا رنگ کالا