مقبوضہ بیت المقدس (این این آئی+اے ایف پی) مغربی کنارے میں مزید 2 فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا، فوجی ترجمان نے الزام لگایا دونوں نے فوجی چوکی پر چاقوؤں سے حملے کی کوشش کی تھی، شہدا کی تعداد 1467 ہو گئی۔ اسرائیلی فوج اور پولیس کی جانب سے گزشتہ روز فلسطینیوں کی قبلہ اول تک رسائی روکنے کیلئے جگہ جگہ ناکے لگا کرانہیں روکنے کی کوشش کے باوجود 17 ہزار فلسطینی قبلہ اول میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے پہنچنے میں کامیاب رہے۔اطلاعات کے مطابق مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کرنیوالوں میں بیت المقدس کے علاوہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے 200 باشندے بھی شامل تھے جو’ایریز‘ گزرگاہ عبور کرکے قبلہ اول پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔نماز جمعہ سے قبل ہی اسرائیلی فوج اور پولیس نے مسجد اقصیٰ کے اطراف قدیم تاریخی شہر کا محاصرہ کررکھا تھا اور جگہ جگہ ناکے لگا کر شہریوں کی تلاشی کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔الشیخ یوسف ابو سنینہ نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قبلہ اول سمیت فلسطین میں موجود تمام مقدس مقامات کے دفاع کیلئے ہرممکن اقدام کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے یہودی آباد کاروں کی جانب سے مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدس مقامات پر قبضے مجرمانہ سازشوں کی مذمت کی اور کہا کہ مقدسات کا دفاع تمام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ آزاد نہیں ہوتے فلسطین آزاد نہیں ہوگا۔ ایک فلسطینی مسلمان اور ایک اسرائیلی یہودی کی محبت کی کہانی بیان کرنے والی کتاب پر اسرائیلی وزارتِ تعلیم کی جانب سے سکولوں میں پڑھانے پر پابندی لگانے کے بعد لوگ اسے بڑی تعداد میں خرید رہے ہیں۔حکام کو خدشہ ہے کہ مصنف ڈورٹ رابنیان کی ’باڈر لائف‘ نامی کتاب یہودی اور عرب نوجوانوں میں تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتی ہے۔2014 میں شائع ہونے والی یہ کتاب ایک اسرائیلی خاتون کی کہانی بیان کرتی ہے جن کو نیویارک میں ایک فلسطینی فنکار سے محبت ہو جاتی ہے۔ جب یہ دونوں واپس اپنے ممالک میں آتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔لیکن حکام کے اس فیصلے کا الٹا اثر ہوا ہے اور کتاب کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اس کتاب کی دیگر ممالک میں اشاعت کے حوالے سے بھی دلچسپی بڑی ہے۔ سپین، برازیل اور ہنگری میں اس کی اشاعت کے لیے اس کے ترجمے کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے۔ مصنف ڈورٹ رابنیان کے ایجنٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں ایک محدود مارکیٹ ہونے کے باوجود ایک ہفتے میں کتاب کی 5 ہزار سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں اور بہت سی دوکانوں سے اس کی تمام کاپیاں فروخت ہوگئی ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مصنفہ کا کہنا تھا کہ ’ اس کتاب کو خریدنے کی وجہ میرے خیال میں ایک احتجاج ہے۔اس کو صرف میرے مداح نہیں بلکہ اسرائیلی جمہوریت کے مداح بھی خرید رہے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کتاب کو خرید کر وہ اسرائیل کی کشادہ ذہنیت، آزادی رائے اور پسند کی تصدیق کر رہے ہیں۔‘