علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ہر اس مقصد میں رنگِ ثبات دوام ہوتا ہے جسے کسی مردِ خدا نے شروع کیا ہو۔ یہ ہمدرد شوریٰ ہے جو ایک غیر سیاسی تھنک ٹینک ہے اور جسے شہید پاکستان حضرت حکیم محمد سعید نے مجلس شوریٰ کی صورت عطا کی تھی اور آج تک چاروں صوبوں میں، چاروں صوبوں کے عالی دماغ اور سکہ بند دانشور حضرات و خواتین رضاکارانہ طور پر فلاح مملکت کے کاموں میں غور و فکر کر رہے ہیں اور عوام و خواص کی ایک رائے استوار کر رہے ہیں۔ اس مجلس پر ابھی تک حکیم محمد سعید کی اصول پسندی اور وقت کی پابندی کی چھاپ ہے۔ تمام ارکان خلوص و محبت کے ساتھ آتے ہیں اور باضابطہ ہر مہینے کسی قومی یا بین الاقوامی مسئلے کا حل دریافت کرتے ہیں۔
گو انا کی ماری ہوئی جمہوری و سیاسی حکومتوں کو اس قسم کے بے لوث اور بے غرض اہل فکر و دانش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے پاس اپنے لے پالک ہوتے ہیں جو ہر دم اچھا کی تختی اٹھائے ان کے آگے پیچھے پھرتے رہتے ہیں۔ پھر بھی حکیم صاحب نے اپنے لوگوں سے کہا تھا میں رہوں یا نہ رہوں ایک اچھے کام کی ابتدا کر کے جا رہا ہوں۔ میرے بعد اس کو جاری و ساری رکھنا۔ مرد خدا کا عمل اسی طرح ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔ ورنہ تو بعض ایسے بدنصیب بھی ہوتے ہیں کہ باپ کے مرنے کے بعد اس کی دکان بند کرا دیتے ہیں۔
یقیناً ارکان شوریٰ بھی قابل صد احترام ہیں کہ رسم وفا نبھا رہے ہیں اور ملت کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ رواں مہینے کی شوریٰ کا موضوع حالات کے مطابق انتہائی اہم اور خیال انگیز تھا۔ یعنی پاک چین اقتصادی راہداری کے معاشی اور معاشرتی اثرات …
ایجنڈے کے مطابق چار مہمان سپیکر بلائے گئے تھے جنہوں نے اس منصوبے کے ہر پہلو پر اپنی ماہرانہ اور مدبرانہ رائے سے ارکان کو آگاہ کیا اور وہ جو ایک خواہ مخواہ کی غلط فہمی پیدا کرنے کی کاوشیں پیہم کی جا رہی ہیں۔ دلائل سے اس کی نفی کر دی۔ ہمارے قابل قدر مہمانوں نے بہت تفصیل کے ساتھ اس منصوبے کی معاشی معاشرتی اور سیاسی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ جناب محمد جمیل بھٹی سابق اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب نے اس منصوبے کا گہری نظر سے مطالعہ بھی کیا ہے اور جائزہ بھی لیا ہے۔ ان کے خیال میں اس کی قومی اہمیت شدید تر ہے۔ بعض عناصر کو جان بوجھ کر اس منصوبے کی مخالفت کا کام سونپا گیا ہے۔ اس منصوبے کو کالا باغ ڈیم بننے سے ہر قیمت پر روکا جائے انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت بات کہی۔ ہم اتنے بے ایمان نہیں جتنے کہ نالائق ہیں۔ نالائق لوگ اپنی نالائقی کو چھپانے کے لئے خواہ مخواہ شور مچانے لگتے ہیں ان کو باور ہو کہ پاک چین دوستی پائیدار ہے اور یہی پائیداری اس منصوبے کی تکمیل کی ضمانت ہے اور یہ وہ واحد پروجیکٹ ہے جس سے چاروں صوبوں کی معیشت کو استحکام ملے گا۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ نہ صرف پرنسپل ہیں بلکہ ان کے پاس پاک چائنہ ریلیشن شپ کی ڈاکٹریٹ ڈگری ہے۔ وہ ٹی وی اینکر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا اس منصوبے سے انرجی کرائسس ایک دم ختم ہو جائیگا۔ ہمارے اکنامک زون بڑھیں گے۔ ایک روڈ نیٹ ورک شروع ہو گا۔ معیشت اور تجارت کو نئی راہیں ملیں گی۔ ہم اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل ہونگے۔ انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔
خواہ مخواہ کی Controversy شروع کرنے کی بجائے۔ پارلیمنٹ کا ایک جوائنٹ سیشن بلایا جائے اور سارے صوبوں کو اعتماد میں لے کے‘ ان کی غلط فہمیاں دور کرکے اس حیات بخش منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائے۔ جناب شیخ محمد ارشد جو لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر ہیں۔ انہوں نے کہا یہ ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے۔ اس کی تکمیل 2030ء تک ممکن ہو سکے گی۔ اس سے ہمارے ملک کو پانچ بڑے فائدے ہوں گے انرجی‘ کوئلہ‘ ونڈ‘ آئرن اور گیس… درآمد اور برآمد کے ساتھ… منصوبہ بفضلِ تعالیٰ شروع ہو چکا ہے۔ ہمیں اپنی استطاعت اور ہنرمندی کا اظہار کرنے کیلئے اپنے ملک کی لیبر اور انجینئرز کو اس منصوبے کا کام بھی سونپنا چاہئے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے بین الاقوامی تعلقات اور تجارت پر مثبت اثرات ہوں گے اور ہمارے دوست چین کے ساتھ روابط اور بھی مستحکم ہوں گے۔
جناب رانا صدیق الرحمن نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک اکنامک کاریڈور ثابت ہو گا ایکسپورٹ کے لئے ہمارے ملک کو سینکڑوں روٹ ملیں گے۔ یہاں سے چمڑے کی مصنوعات‘ ٹیکسٹائل اور ٹیکنالوجی کی ٹرانسفر بڑھے گی۔ اس کے دور رس نتائج رفتہ رفتہ سامنے آئیں گے۔ یہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے جسے کوئی حکومت الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے لئے بنا رہی ہے۔ بلکہ یہ راہ داری ساری دنیا کا رخ پاکستان اور اس ریجن کی طرف موڑ دے گی۔
ہمارے شوریٰ کے ارکان نے بھی کم و بیش اسی قسم کا اظہار کیا۔ جناب خالد نصر نے تفصیل سے بتایا کہ جہالت‘ بیکاری‘ مہنگائی اور بے سکونی دور ہو گی۔ نئی نسلوں کو نئے مواقع ملیں گے۔ جناب قیوم نظامی نے کیا اچھی بات کی کہ اس قسم کے منصوبے سیاست اور بیورو کریسی سے دور ہی رکھنے چاہئے اور ان کو سیاسی رنگ میں نہیں رنگنا چاہئے۔ جناب جنرل راحت لطیف نے کہا ہمارے ملک میں کالی بھیڑوں کی کمی نہیں ہے جو ایسے موقعوں پر نکل آتی ہیں یا چھوڑ دی جاتی ہیں۔ جن کا کام افواہیں پھیلانا اور رکاوٹیں کھڑی کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں ان کی شناخت کرکے ان کو لگام ڈالنی چاہئے۔ جس طرح ہم نے ایٹمی منصوبہ سیاست سے بچ کر مکمل کر لیا تھا۔ جناب ابصار عبدالعلی نے کہا کہ یہ اقتصادی منصوبہ ہر حال میں مکمل ہونا چاہئے۔ یہ اللہ کی جانب سے ایک نعمت کی طرح ہے۔ ہم پاک فوج سے ضمانت مانگتے ہیں کہ ضرب عضب کی طرح وہ اس کو مکمل کروانے کی گارنٹی دے۔
جناب ایس ایم ظفر صاحب ہمیشہ کوئی نیا نکتہ نکال کے لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان اور چین کا مشترکہ وژن ہے۔ اس میں Will اور طاقت دونوں ملکوں کی ہے۔ گوادر پر اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔ پاکستان ڈویلپ ہو گا۔ اس منصوبے کی افادیت کے پیش نظر اسکی تکمیل کی گارنٹی پاک فوج پہلے ہی دے چکی ہے۔ اسکی مخالفت میں اٹھنے والی چند آوازوں کو ویٹو پاور نہیں دی جا سکتی جبکہ یہ منصوبہ پورے پاکستان کی اقتصادیات کو بدل کر رکھ دے گا۔
غرض جتنے ارکان شوریٰ نے اظہار خیال کیا۔ تو یہی کہا کہ ہر صدی اپنے اختتام کے بعد کسی نئی ایجاد یا کسی نئے واقعہ سے منسوب ہو جاتی ہے۔ جس نے پوری دنیا کو مثبت یا منفی انداز میں متاثر کیا ہو۔ غالب امکان ہے کہ مستقبل میں 21ویں صدی کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ جنوبی مغربی پاکستان (گوادر) سے شمال مغربی چین (کاشغر) تک تین ہزار کلو میٹر طویل عظیم الشان منصوبہ صنعت و حرفت کی تاریخ میں ایک روشن باپ بنتا صاف نظر آرہا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف برسہا برس پر محیط پاک چین دوستی کا ایک مظہر ہے بلکہ یہ چین، پاکستان، مشرقی وسطی، مغربی ایشیاء اور افریقہ کے بیشتر ممالک کو اپنی اقتصادی ضروریات کے حوالے سے ایک دوسرے سے باہم جوڑ دیگا اور مذکورہ ممالک کے عوام کو بھی ایک دوسرے کے قریب لے آئیگا۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس اور تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی علاقائی مفادات کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے۔
آخر میں ہمدرد شوریٰ کے ارکان نے ایک قرار داد بھی پاس کی جس کا متن تھا کہ ہمدرد شوریٰ کا سال 2016ء کا یہ پہلا اجلاس ضراب عضب کی منظم کامیابی پر اور ملک کے اندر امن و امان کی فضاء قائم کرنے پر پاک فوج کو زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہے اور پاک فوج وعسا کری قوتوں سے بجاطور پر اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہدای کے منصوبے کو بطریق احسن تکمیل تک پہنچانے کی گارنٹی بھی قوم کو دی جائے۔