ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی رجحان روسی صدر پیوٹن کی طرف ہے۔ امریکی محسوس کر رہے ہیں کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکاﺅ روس کی طرف ہے۔ اسکی وجہ پیوٹن کی امریکی صدارتی الیکشن میں خفیہ کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق پیوٹن نے صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہونے کیلئے مہم چلانے کا حکم دیا تھا۔ روسی صدر نے ٹرمپ کی مدد کی۔ نئے امریکی صدر کاروس کے ساتھ خیر سگالی رویہ امریکیوں اور دنیا بھر کےلئے اچنبھے کا باعث ہے۔ سینئر ارکان کانگریس نے بھی نو منتخب صدر سے یہ سوال کیا ہے۔ روس اور امریکہ کی دشمنی، نفرت، انتقام ہالی ووڈ کی فلموں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے لیکر دنیا کی ہونیوالی آدھی جنگوں میں دونوں ممالک ایک دوسرے کیخلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔ نائن الیون کا واقعہ ہو یا آج سے 35 سال پہلے افغانستان میں کی جانیوالی روسی کارروائی اور امریکہ کی مداخلت سے سبھی واقف ہیں۔ روس کو افغانستان میں تسلط مہنگا پڑا۔ اس جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور روس نے ایران افغانستان کے ذریعے بھارت سے اپنے جغرافیائی سیاسی اور جنگی تعلقات کو استعمال کیا۔ روس کی پسپائی، ہزیمت اور بدترین شکست کے ساتھ ٹکڑے ہونا امریکہ کی سٹریٹجی کا حصہ تھا۔ روس بری طرح ٹوٹا۔وہ امریکہ کا مد مقابل تھا۔ امریکہ نے اسے پاش پاش کر کے دنیا میں سپر پاور کا نیا امیج دیا۔ اسلئے امریکہ اور روس کے درمیان سرد مہری کے علاوہ تلخ رویوں کا بھی سامنا ہوا۔ یہ بالکل وہی پوزیشن تھی جیسی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے۔ دونوں ممالک میں رنجشیں، کدورتیں اور نفرتیں چلی آرہی ہیں لیکن اسکے باوجود نواز شریف کا شدید ترین جھکاﺅ بھارت کی جانب ہے اور نریندر مودی سے دوستیاں ہیں حالانکہ بھارت نے سفاکی اور درندگی کے بے شمار مظاہرے کئے ہیں۔ کنٹرول لائن پر پاکستانیوں کا ہر روز خون بہایا گیا ہے بھارت نے ہر موقع پر پاکستان کو زک پہنچائی ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاشی معاشرتی ثقافتی تعلیمی دینی عقائد و نظریات پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازشوں سے لیکر بم دھماکوں تک بھارت کا مکروہ کردار ہے۔ پاکستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں پر 2016ءمیں مسلسل LOC کی خلاف ورزیاں کر کے روزانہ پاکستان کو خون میں نہلایا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ جن دنوں سرتاج عزیز زبردستی بھارت گئے اور سرکاری سفارتی سطح پر سرتاج عزیز سے بدسلوکی کی گئی۔ اسکے چند دن بعد ہی وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی وزیر کی مزاج پر سی کی۔ خط پھول اور تحائف بھجوائے۔ نریندر مودی کو 2016ءمیں کم و بیش ڈیڑھ درجن مرتبہ فون کئے۔ اس پاکستان مخالف رویے پر اپوزیشن کے علاوہ پاکستان کے ہر پڑھے لکھے، سنجیدہ اور محب وطن پاکستانی نے اعتراض کیا مگر تمام تر اعتراضات کے میاں نواز شریف کا نریندر مودی سے قرب خاص ختم نہ ہوا اور نہ ہی کشمیریوں کے ساتھ بھارتی درندگی جارحیت اور خون ریزی پر وزیراعظم نواز شریف نے نریندر مودی سے احتجاج کیا یا بھارت کیخلاف آوازی اٹھائی۔ اسکی وجہ وزیراعظم کے بیٹوں کا بھارت میں پھیلنے والا بزنس ہے۔ عمران خان نے اس حوالے سے شدید احتجاج کیا اور بے شمار ثبوت بھی فراہم کئے مگر تمام مقتدر ادارے دم سادھے رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی بزنس آئیکون ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بزنس پر سابق صدر اوبامہ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تازہ ترین بیان میں باراک اوبامہ نے واضح طور پور تنبیہ کی ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہاﺅس کو خاندانی کاروبار نہ سمجھیں۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ بزنس مین افراد کو سیاسی عہدے پر ہرگز نہیں دینے چاہیں۔ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو نظر انداز کیا ہے اور ٹرمپ کے آنے کے بعد پہلی مرتبہ اسرائیل کے برعکس فلسطین کی حمایت کی گئی ہے جس سے اسرائیل غضبناک ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کی ساکھ بھی گری ہے۔ اس وقت متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، افغانستان، ایران بنگلہ دیش، لبنان، عراق اور افغانستان کا زیادہ رجحان پاکستان کے بجائے بھارت کی جانب ہے۔ سعودی عرب میں پاکستان سے زیادہ بھارتی شہریوں کی عزت، روزگار اور حقوق ہیں۔ آجکل پاکستان کا جھکاﺅ روس کی طرف بھی ہے۔ روس تیزی سے سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کیلئے سرگرداں ہے۔ افغانستان تو بغیر اجازت ہی سی پیک کے بہت زیادہ فوائد حاصل کریگا لیکن روس کے آنے سے پاکستان نئے خطرات میں گھرنے والا ہے۔ سی پیک منصوبے بھی ”غریب کی جورو، سب کی بھابھی“ کی طرح بنادیا گیا ہے جو ملک ذرا سی چاپلوسی کرتا ہے۔ پاکستان اسے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر پلاننگ کے شامل کر رہا ہے۔ کل کو چین روس افغانستان بنگلہ دیش، بھارت، ایران اور دیگر کئی ممالک مکمل طور پر ہائی جیک کرلیں گے۔ پاکستان کے ہاتھ میں ٹھینگے کے سوا کچھ نہیں آئیگا۔ نہ اسکے شہریوں کو حقیقی فوائد حاصل ہونیوالے ہیں۔ اسکا سراسر فائدہ مندرجہ بالا سات ممالک کو ہوگا، پاکستان کو صرف چھان بورا ملے گا۔ ہوسکے تو میری یہ بات کہیں لکھ لیجئے پاکستان کی تو اس ے زیادہ کیا بدنصیبی ہوگی کہ بھارت میں 4000 کے قریب پاکستانی قید ہیںان پاکستانیوں کو جیلوں سے نکلوانے کیلئے حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حکومت کی تمامتر دلچسپی بھارئی قیدیوں کی رہائی میں ہے یا امریکہ کی تابعداریوں میں ہے۔ دوسرے ممالک سے مراعات، فنڈز، امدادیں، قرضے اسلئے لئے جاتے ہیں کہ ملک کے حالات بہتر کئے جائیں۔ ملک کو احسن طریقے سے چلایا جائے۔ عوامی بہبود کے کام کئے جائیں لیکن ہمارے حکمران کھربوں کی اپنی املاکین بناتے ہیں۔ غیر ملکی دورے اور غیر ملکی علاج کرتاے ہیں۔ صرف اپنے تعلقات بنانے اور اپنے بنک بیلنس بھرنے پر دھیان رہتا ہے پھر عمران خان انصاف کی بات کرے تو یہ بے پری اڑاتے ہیں۔ اگر طاقت کے بل پر انہیں اور ان جیسوں کو دنیا کے خزانے مل بھی جائیں تو عزت محبت اور ہمیشہ کی زندگی تو نہیں ملے گی نا۔