جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت شروع کی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ انہیں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ سے متعلق آبزرویشن نہیں دینی چاہیے تھی، اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں. نعیم بخاری نے اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے بارے میں رپورٹ سے دلائل کا آغاز کیا، عدالت کا کہنا تھا کہ رحمان ملک کی رپورٹ محض الزامات ہیں اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، بخاری صاحب کچھ تو قانون کا لحاظ کریں، کیا عدالت کا فیصلہ کرنے کا اختیار رحمان ملک کو دے دیں، ہم نے پہلے دن کہا تھا کہ عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں، آپ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ پہلے تفتیش کرے پھر ٹرائل کورٹ بن کر فیصلہ دے، اس وقت عدالت کے سامنے معاملہ آئینی طور نااہل قرار دینے کا ہے، نعیم بخاری نے ایک بار پھر لندن فلیٹس کے بارے میں دلائل کا آغاز کیا، جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ اب آپ وکٹ پر آئے ہیں، پچ سے باہر نکل کر نہ کھیلیں، سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہیے، بظاہر رپورٹ میں منی ٹریل کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی، ہمارا کام کرپش ثابت کرنا نہیں ہے. جسٹس گلزار نے وکیل نعیم بخاری کو تبنیہ کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی سوال پوچھا جائے اسی کا جواب دیا جائے، پانامہ کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے، اگر آپ دوسری جانب دلائل دینگے تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا، سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے پیرامیٹرز سے باہر نہ نکالیں، نیب کو تحقیقات کاکہہ سکتے ہیں لیکن ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہیں گے، آپ نیب کے پاس جائیں اور درخواست دیں، جس کے بعد پاناما کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔ نعیم بخاری کل بھی دلائل جاری رکھیں گے.