محب وطن سویلین سپہ سالار پیرپگاراشاہ مردان شاہ

Jan 10, 2018

10 جنوری 2012 ہمارے لئے وہ دن ہے جب ایک افسوسناک خبر نے پورے ملک کوسوگوار کردیا اور آج پھر دل یہ کہہ رہا ہے کہ اے جنوری تم کیوں آئے اور آکر ہم سے ہمارا محبوب رہنما چھین گئے۔ چھ سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہمارے محبوب مرشد پیر شاہ مردان شاہ کی موت کو دل تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی آنکھیں دل دماغ اور ہاتھ مرحوم لفظ لکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ 10 جنوری کا دن حر جماعت اور سندھ کے رہنے والوں کیلئے قیامت سے کم نہیں تھا۔ ہر طرف دکھ، غم اور مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ چھ سال کے بعد بھی ہر ساعت شاہ مردان شاہ کی شخصیت کو دل میں سموئے رکھا ہے۔ پیر شاہ مردان شاہ کی شخصیت اس لئے بھی عظیم تھی کہ وہ پیر سورھیہ بادشاہ کے فرزند تھے۔ بہادر کی اولاد بھی بہادر ہوتی ہے شاہ مردان شاہ کی دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ساتواں پیر پگارا بننے کے بعد انگریز سامراج کی قید میں دربدری والی زندگی گزارنے والی جماعت کو آزاد کرواکر نہایت ہی دانائی اور دانشمندی سے قلیل وقت میں باہمت اور بہادر بنا کر ملک اور سندھ کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے منظم کیا اور پاکستان کی عزت و ناموس کی خاطر خود کمان سنبھالی ایسی مثال دنیا میں بمشکل ملے گی۔ 1952ء میں ساتواں پگارا بننے کے بعد 13 سالہ صغیر عمر میں جنگی محاذ کو سنبھالا یہ بھی ایک کمال اور کارنامہ ہے۔ شاہ مردان شاہ نے جس انداز سے جماعت کو منظم کیا سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر مضبوط کیا یہ ایک الگ اور شاندار باب ہے۔ 1965ء کی جنگ میںحر مجاہدوں نے پیر شاہ مردان شاہ کی کمانمیں انڈیا کی 1200 کلو میٹرزمین پر پیش قدمی کرتی ہوئے اپنے پائوں جما کر انڈیا کو حیران کردیا۔ اللہ رب العزت نے شاہ مردان شاہ کو اتنا نوازا کہ جو الفاظ وہ زبان سے نکالتے تھے قدرت ان کو اپنی خاص مہربانی سے قبولیت کا درجہ دیتی تھی۔ ان کی مثالی شخصیت کا اندازمنفرد اور نرالہ تھا اس عاشق رسولؐ نے سیاست کرتے ہوئے بھی سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور کبھی بھی سچ بولنے سے نہ گھبرائے۔ بہادری اور دلیری توان کو ورثے میں ملی تھی کیونکہ آپ سچے عاشق رسولؐؐ ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے بہت بڑے بزرگ اور قابل انسان تھے۔ سخاوت کرنا تو کوئی شاہ مردان شاہ سے سیکھے۔ ادب عاجزی و انکساری کے علمبردار تھے۔ ان کا ملنا جلنا اور مہمان نوازی کرنا سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ہر شخص کو ان سے ملنے کی خواہش ہوتی تھی اور جو بھی ایک مرتبہ اس روشن خیال اور زندہ دل رہنما سے ملتا تھا تو وہ بار بار ملنے کی تمنا کرتا تھا۔ پیر شاہ مردان شاہ کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے انہوں نے خانقاء روزے دھنی کی برکت سے اس سسٹم کو اتنا مضبوط اور منظم کیا اور بڑوں کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ جماعت عقیدت مند، محب وطن عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر عملی کام کیا۔ شاہ مردان شاہ ملک، درگاہ، جماعت اور سندھ کے عوام کے لئے جو خدمتیں اور کارنامے سرانجام دیئے وہ بھی سنہری باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہر دم غریبوں، مسکینوں اور مصیبت زدہ لوگوں کے لئے مسیحاکا کردار ادا کیا۔ ان کے پاس جو بھی سوالی آتا تھا اللہ کی مہربانی سے اس کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹنے دیا۔ ان کے پاس آکر لوگ ایم۔ این۔ اے، ایم۔ پی۔ اے، سینیٹرز، وزیر اورصلاح کار بنے اور کچھ اللہ کے بندوں نے تو صرف شاہ مردان شاہ کی دعائوں کو ہی سب کچھ سمجھا اور انہی کی دعائوں کی بدولت لوگوں نے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پایا۔ جماعت کو اتنا پختہ اور مضبوط کیا اور خستہ حال جماعت میں سے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم پاکستان بنا کر اپنے انداز سے کمال کا اظہار کیا۔ دینی، اسلامی اور سماجی کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہمیشہ تلقین کرتے تھے کہ فتنہ فساد سے دور رہیں، اپنے پڑوسیوں سے بہتر سلوک رکھیں، نماز پابندی سے قائم کریں اور قادری سلسلے کے طریقہ کار کے مطابق ذکر ضرور کیا کریں۔ مختلف اوقات میں پیر سائیں نے سختی سے حکم دیا کہ جب بھی عوام، ملک اور سرحدوں پر خطرناک صورتحال ہو تو سب سے پہلے اپنے آپ کو ملک کے لئے وقف کردو۔ ناظمین والے نظام کے خلاف سب سے پہلے پیر شاہ مردان شاہ نے آواز بلند کی اور یہ بھی کہا کہ اسی نظام کی وجہ سے پرویز مشرف کو جانا پڑے گا اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس نظام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ 1991ء میں پانی کا تاریخی معاہدہ بھی میرے مرشد شاہ مردان شاہ کے حکم اور ہدایت پر جام صادق علی کی حکومت نے کیا۔ کمشنری نظام کی بحالی کے لئے بھی انہوں نے سب سے پہلے حکومت کو متنبہ کیا۔ شاہ مردان شاہ نے ہمیشہ متحدہ کو بھی صاف صاف کہا کہ آپ نے اور ہمیں یہاں سندھ میں رہنا ہے اس لئے ہمیں امن اور انصاف سے رہنا ہوگا۔ خدا نہ کرے اگر کوئی دنگا فساد ہوا تو سب سے زیادہ نقصان بھی متحدہ کا ہوگا۔ شاہ مردان شاہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں بلدیاتی الیکشن نہ کروائے ہیں نہ کروائے گی۔ 1988ء کے الیکشن میں پیر صاحب نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی آئندہ الیکشن میں نہیں ہوگی اور ایسا ہی ہوا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کا وجود عمل میں آیا جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم تھے ۔ وہ وقت بھی دور نہیں جب پیر صاحب نے فرمایا تھا کہ زیردست بالادست ہوں گے اور بالادست دربدر اور خاک بسر ہوں گے اور شاید وہ وقت دور نہیں کہ بلاول زرداری والی پیشگوئی بھی جلد سچی ثابت ہو۔ میرے روحانی رہبر اور سیاسی رہنما شاہ مردان شاہ نے تعلیم اور خاص طور پر بچیوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیا۔ پیر شاہ مردان شاہ کی تاریخ ساز شخصیت پر لکھنے کے لئے بہت سارا وقت درکار ہے اور ان کی زندگی کا ہر ایک پہلو تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ انہوں نے ہمیشہ آنے والوں کو صحیح تجاویز اورنیک مشورے دیئے انہیںہمیشہ جماعت کے ساتھ ساتھ سندھ کے عوام اور ملک کے تحفظ کی فکر رہتی تھی۔ اس مقصد کے لئے وہ ہمیشہ اپنے منفرد انداز سے پریس کانفرنس کرکے حکومت کی رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کومضبوط اور استحکام بخشنے کے لئے تجاویز بھی دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی اور روحانی بصیرت سے جب بھی آنے والے دنوں میںمشکل محسوس کی تو پہلے سے ہی قوم کو آگاہ کیا۔ پیر شاہ مردان شاہ جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ان کے بچھڑ جانے سے جو خلاء پیداہوا ہے اس کو بھرنے میں بڑا وقت درکار ہوگا ان کی شخصیت طلسماتی تھی کہ جو ان سے ایک بار ملتا تھا تو وہ دعویٰ کرتا تھا کہ شاہ مردان شاہ صرف اس کا دوست ہے اور وہ اسی کو چاہتا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا و التجا ہے کہ اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں خاص طور پر محب وطن سندھ کے رہنے والے حروں اور عقیدت مندوں پر فرض ہے کہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں اور ہدایتوں پر عمل کریں۔

مزیدخبریں