بھارتی اخبار کی کلبھوشن بارے پاکستانی موقف کی تصدیق

یوں تو بھارت کے نام نہاد سیکولر چہرے کا پول دنیا کے سامنے کئی مرتبہ کھل چکا ہے لیکن کلبھوشن اور آزادیٔ صحافت کے معاملے میں بھارت کو جتنی سبکی گزشتہ دنوں اٹھانا پڑی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس عمل کا نظارہ دنیا نے اس وقت دیکھاجب بھارت کے اخبار دی کوئنٹ نے اپنی ہی خفیہ ایجنسی ‘‘را’’ کے کرتوت بے نقاب کر دیئے جبکہ جاسوس کلبھوشن سے متعلق سچ بولنے پر بھارتی سرکار کو مرچیں لگ گئیں اور اس اخبار کو کچھ دیر کے لئے بند کر دیا گیا حتیٰ کہ خبر فائل کرنے والے رپورٹر کو بھی غائب کر دیا گیا ۔ یہ بھارت کے سکیولر منہ پر ایک طمانچہ تھا کہ وہ اس حقیقت کوہضم نہ کر سکا جس کا انکشاف خود اس کے ہی ایک اخبار نے کیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کلبھوشن یادیو کے ‘‘را’’ کے جاسوس ہونے سے متعلق خبر شائع کرنے والے بھارتی صحافی چندن نندے کے لاپتہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا یہی آزادی رائے ہے جس کا بھارت راگ الاپتا ررہتا ہے ۔

کہتے ہیں جب گیدڑ موت آتی ہے، تو شہر کی جانب دوڑتا ہے۔ جبکہ بھارت تو اپنے ہی اخبار کی اس خبر کے بعد شہر کی جانب بھاگنے کے قابل بھی نہیں رہ گیا۔ اس کی ٹانگیں ابھی تک کانپ رہی ہیں کہ اس کے ساتھ ہو کیا گیا ہے۔ بھارت کو کیا معلوم تھا کہ اس کے جاسوس کلبھوشن کے بارے میں جو حقائق پاکستان سامنے لایا ہے ایک روز حرف بہ حرف سچ ثابت ہوں گے اور بھارت کا اپنا ہی ایک اخبار خود بھارت میں بیٹھ کرسچ اُگل رہا ہو گا اور بھارت کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ جب سے یہ خبر چھپی ہے بھارت میں تھرتھلی مچی ہے اور بھارت کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کس طرح دنیا سے اپنا منہ چھپا سکے۔ بھارتی اخبار کوئنٹ کا انکشاف گویا ایک بم شیل تھا جو بھارت کی کھوپڑی پر لگا۔ اس نے لکھا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی جاسوس ہے جسے بھارتی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسروں نے بھرتی کیا اور کلبھوشن یادیو کے حوالے سے پاکستان کا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے۔ اگرچہ یہ خبر تھوڑی دیر بعد ویب سائٹ سے ہٹوا دی گئی لیکن اس وقت تک یہ پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ بھارتی سرکار اور سارا بھارتی میڈیا اس خبر کو لے کر سراپا احتجاج تھا اور وہ اپنے ہی اخبار کی درگت بنانے میں لگے تھے کہ اس نے سچ کیوں بولا۔ پاکستان نے کلبھوشن کو دو سال قبل بلوچستان کے علاقے سے گرفتار کیا تھا اور اس کے بعد سے بھارت یہ تردید کرتا آ رہا ہے کہ کلبھوشن بھارتی جاسوس نہیں ہے۔ جبکہ کلبھوشن اب تک اپنے کئی اعترافی ویڈیو بیانات میں یہ کہہ چکا ہے کہ وہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس جاسوس تھا اور پاکستان میں دہشت گردی‘ دنگا فساد اور انتشار پھیلانے کے لئے یہاں حسین مبارک پٹیل کے نام سے مقیم تھا۔ شک ہونے پر اسے پکڑا گیا اور بعد ازاں فوج کی تحویل میں اس نے تسلیم کیا کہ کراچی میں چودھری اسلم کے قتل سمیت درجنوں کارروائیوں میں اس کا براہ راست ہاتھ تھا۔ یہی انکشافات بھارتی اخبار ‘‘دا کوئنٹ ’’نے اپنی رپورٹ میں کئے کہ کلبھوشن یادیو ملک کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسز ونگ (را) کا ایجنٹ تھا جو اناڑی پن میں مار کھا گیا اور پکڑا گیا۔ تاہم بھارتی اخبار کو یہ راز سامنے لانا اور سچ بولنا مہنگا پڑ گیا، اور خبر دینے والے رپورٹر چندن نندے کو بھی غائب کر دیا گیا کا اور کچھ دیر بعد رپورٹر کو چھوڑ دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق کلبھوشن را کے ایجنٹ اور جاسوس کے طور پر کام کرتا رہا، اسے بطور جاسوس تعینات کرنے پر راکے 2 اعلیٰ افسران کو تحفظات تھے ، اگرچہ کلبھوشن یادیو کی بھرتی کے دوران معیاری طریقہ کار پر عمل درآمد کیا گیا لیکن یہ انکشاف ہوا کہ را کے 2 افسران کلبھوشن کو ایجنسی میں جاسوس کے طور پر بھرتی کرنے اور پاکستان میں اس کے کام کرنے کے مخالف تھے ۔، ایران، پاکستان ڈیسک پر کام کرنیوالے بھارتی افسران تعیناتی میں معاون ثابت ہوئے ۔یہ تفصیلات دے کر دراصل اس بھارتی اخبار نے پاکستان کے اس دعوے اور مقدمے کو اور مضبوط کر دیا ہے کہ کلبھوشن یادیو ایک دہشت گردی بھارتی جاسوس اور را کا ایجنٹ ہے جس کی بنیادی ذمہ داری پاکستان میں تخریبی کارروائی اور دہشت گردی تھی تاہم اخبار کوبھارتی حکومت شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور یوں سیکولرازم کے نعرے لگانے والا ملک بری طرح بے نقاب ہو گیا ہے۔ اخبار کے مطابق کلبھوشن یادیو کے پاکستان میں پکڑے جانے کے بعد را کے دو اہلکاروں نے ممبئی میں اس کے والدین کو دھمکیاں بھی دیں کہ وہ اپنے بیٹے کے کیس کے بارے میں کسی سے بھی گفتگو نہ کریں، کلبھوشن یادیو کا پاسپورٹ بھی اس کے بھارتی شہری ہونے کا ثبوت ہے ۔ حسین مبارک پٹیل کے نام پر ایک پاسپورٹ اور دوسرا بھارتی شہر تھینی کا پاسپورٹ جس کی مدت 2024 ء تک تھی۔ اب جبکہ اتنی باریکی سے تفصیلات بھارت کے میڈیا کی جانب سے سامنے آ گئی ہیں تو بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب کلبھوشن کے جاسو س ہونے پر کوئی شک نہیں رہ جاتا اور یہ کہ بھارت اپنے جاسوس کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی پوری طرح سرپرستی کر رہا تھا۔بھارت کے علاوہ مقبوضہ مقبوضہ کشمیر میں بھی یہ ذرائع ابلاغ پر جبری پابندیاں لگاتا آ رہا ہے۔کبھی انٹرنیٹ سنسر کر دیا جاتا ہے کبھی اخبارات اور ریڈیو پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بھارتی فوج کے کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کو چھپایا جا سکے۔مقامی سطح پر صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ وہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لانے سے گریز کریں بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ میڈیا پر پابندیاں لگا کر بھارت انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ صحافت کا گلا بھی گھونٹنے کے درپے ہے۔ کلبھوشن کے بارے میں ابھی ایک اخبار نے راز فاش کیا ہے۔ یقینا دیگر بھارتی اور غیر ملکی اخباربھی اسے دیکھ کر ہمت پکڑیں گے۔ بھارت کا حقیقی جاسوس اور حاضر سروس افسر اگر سرحد پار پڑوسی ملک میں کارروائیاں کرتا ہوا پکڑا جائے اور اپنے جرائم کا برملا اعتراف بھی کرے تو بھارت کو سانپ سونگھ جاتا ہے اس کا دوہرا معیار دنیا کے سامنے آشکار ہو چکاہے۔ بھارت اب چاہے بھی تو کلبھوشن کی صورت میں اپنے چہرے پر لگنے والا داغ نہیں مٹا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...