بھارتی فوجی قید میں مارتے پیٹتے، کنپٹی اور زبان پر کرنٹ بھی لگاتے: حسنین

لاہور (خالد بہزاد ہاشمی/ راحیلہ مغل/ فیملی میگزین رپورٹ) واہگہ بارڈر پر زیرو لائن پر چہرے ڈھانپنے والے دس افراد میں سے اپنے لخت جگر حسنین کو پہلی نظر میں پہچان لیا، اگر اسے سو افراد میں بھی چھپایا جاتا تو بھی ایک باپ اپنے بیٹے کی خوشبو اور کشش سے اسے پہچان لیتا۔ ان خیالات کا اظہار بھارتی قید سے رہائی پانے والے 12 سالہ حسنین کے والد جاوید اقبال نے فیملی میگزین نوائے وقت کو اپنی رہائش گاہ ممبانوالہ رنگ روڈ پر خصوصی انٹرویو میں کیا۔ جاوید اقبال نے بتایا کہ پاک آرمی کی گاڑی ہمیں واہگہ بارڈر لے گئی۔ میرے ہمراہ میرے والد اور بھائی بھی تھے۔ میرے بیٹے کی شناخت صبح ساڑھے 8 بجے ہوئی۔ پاک فوج نے میرے بیٹے کو مجھ سے ملوایا میں نے اسے گلے لگایا تو لگا جیسے دوجہاں کی دولت مل گئی ہے۔ ان لمحات کو زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتا۔ پاک فوج، فیملی میگزین نوائے وقت گروپ، انصار برنی، چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور میڈیا کی وجہ سے ہمارے گھر کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ سات ماہ بعد بچھڑا لخت جگر ملنے پر اس کی ماں عشرت بی بی اسے دیر تک گلے لگا کر روتی رہی۔ وہ یہی کہتی رہی کہ مجھے آج کل کائنات مل گئی ہے۔ گونگے بہرے 12 سالہ حسنین نے فیملی میگزین کو بتایا کہ وقوعہ کے روز شام 4 بجے وہ گھر سے باہر نکلا تو سفید رنگ کی کار آ کے رکی اور مونچھوں والے شخص نے اسے بیٹھنے کو کہا اور انکار پر کپڑا میرے منہ کے سامنے لہرایا جس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا، آنکھ کھلی تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ میں مزاحمت کرتے ہوئے ان سے خود کو چھڑانے لگا۔ اسی اثنا میں شاید وہاں کوئی گاڑی آئی جسے دیکھ کر وہ مجھے چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ وہاں خاردار تاریں لگی تھیں میں نے اپنے خیال میں گھر پہنچنے کیلئے انہیں عبور کیا۔ کچھ فاصلے پر کھیتوں میں ہی فوجی گاڑی آ گئی اور سکھ فوجی مجھے ہتھکڑی لگا کر جیل لے گئے۔ حسنین نے فیملی میگزین کو بتایا کہ شروع میں مجھے بھارتی فوجیوں نے مارا پیٹا اور مجھے دیوار کے ساتھ لگا کر میری کنپٹی پر کرنٹ لگایا گیا جبکہ میری زبان پر بھی کرنٹ لگایا۔ اس موقع پر حسنین نے اپنی زبان بھی دکھائی جس پر جگہ جگہ کرنٹ کے نشان تھے۔ وہ مجھ سے بہت سے سوالات کرتے جنہیں میں گونگا بہرا ہونے کے باعث کچھ سمجھنے اور بتانے سے قاصر تھا، پھر انہوں نے مجھے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا تو میں نے جواب میں ہاتھملا کر سلام کیا جس کے بعد مجھے ایک خاتون کے سپرد کیا گیا جو بہت رحمدل تھیں، اس نے میرے آگے بہت سی کتابیں، پاکستانی اور ہندوستانی جھنڈا اور پاکستانی کرنسی رکھی۔ میں نے پاکستانی کرنسی اور قائداعظم کی تصویر پہچان لی جس کے بعد مجھے امرتسر جیل بھیج دیا گیا جہاں میرا بہت خیال رکھا جاتا۔ مجھے کپڑے، دودھ بھی ملتا، صابن اور ٹوتھ برش، نیل کٹر وغیرہ بھی دیتے۔ حسنین نے بتایا کہ وہ کھانا کھاتا ہوئے بھی یہ سوچ کر روتا کہ میری ماں کا کیا حال ہو گا۔ اس نے میری جدائی میں کھانا نہیں کھایا ہو گا۔ میرے ساتھ بعد میں اچھا سلوک ہوا اس پر میں بھارتی حکومت کا شکرگزار ہوں۔ اس موقع پر اسکی والدہ عشرت بی بی نے خادم اعلیٰ سے اپیل کی کہ اس کی غربت اور بیروزگاری کو دیکھتے ہوئے اسے سر چھپانے کیلئے مکان دیا جائے۔ حسنین اور اسکی فیملی سے کیا گیا یہ انٹرویو 21تا 27 جنوری فیملی میگزین کے شمارہ میں شائع ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن