احتساب ٹرین اب سندھ کے سٹیشن پر

Jan 10, 2019

رابعہ رحمن

قلم اٹھاتے ہی خیالات کی یلغار ہونے لگتی ہے تمام خیالات اسی کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہمیں ضبط تحریر میں لایاجائے، ان تمام کو ایک ہی کالم میں سمیٹنا اسی لیے ناممکن ہوتاہے کہ راقمہ صرف ایک موضوع کو لے کر اسی پہ قلم آزمائی کرنے کی سوچ کی حامل ہے تاکہ ایک ہی موضوع اس کے مثبت اور منفی اثرات وجوہات اور زبان خلق کا حق ادا ہوسکے۔
ہمارے ملک میں ایک خوف کی فضا پھیل چکی ہے اس خوف کا شکار وہی لوگ ہیں جو اس خوف کی وجہ بنے ہیں، یقیناً آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے یعنی کہ وہی کرپشن الزامات، تحقیقات نیب، JIT،قانون اور احتساب وغیرہ، حالات جو بھی ہیں مہنگائی کا گھوڑا اپنی طنابیں توڑ کر بھاگ رہا ہے ، بیماری بھوک اور افلاس کی صورتحال سے عوام بے انتہا پریشان ہے، لیکن اس تمام منظر کے باوجود عوام کو ایک نئی صبح کی روشن کرنوں کی امید ہے اسی امید کو لے کر ہی عوام نئے پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر کرپشن کے معاملات اور اعلیٰ عہدیداروں کے بڑے پیمانے پہ عوام کے حقوق اور پیسے پہ شب خون بڑے افسوس کی بات ہے۔
ابھی تک عوام کے سامنے شریف خاندان کے معاملات سے روزبروز آگہی ہوتی ہے کبھی کسی چہرے کوشرمسار دکھایاجاتاہے اور کبھی کسی کا دامن داغدار دکھایاجاتا، عوام کی سوچ بس ان کی ذات کے گرد ہی گھوم رہی تھی کہ ایسے میں سندھ میں پیپلزپارٹی کی کرپشن کا خوفناک چہرہ سامنے لایاگیا، ابھی تک تو عوام ایان علی، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن کے کیس کو بھلا نہیں پائی تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی کرپشن موضوع بحث بنی ہوئی ہے عوام کا مطمع نظر یہ ہے کہ الزام کی سیاست سے باہر نکل کر فیصلے نظر آنے چاہئیں ان فیصلوں میں چاہے کوئی بری ہو یا مجرم ٹھہرا کے سزا کا مستحق ہو مگرکچھ ہوتوسہی؟ دریا میں پائوں لٹکا کے بیٹھنے سے مچھلیاں نہیں چمٹا کرتیں اس کیلئے جال پھینکنا ہوتاہے ماہر مچھیرے لگانے پڑتے ہیں۔
نیب اور موجودہ حکومت جس طرح سے شریف خاندان کو فلٹر پلانٹ سے گزار رہی ہے اسی طرح سندھ کے سیاستدانوں کیلئے بھی ایک فلٹر پلانٹ تیار ہوچکاہے، عہدیدار جو بھی ہوجب اس پہ الزام لگ گیا تو اس کو اپنی خودداری کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی وقت اس عہدے سے علیحدہ ہوجانا چاہیے اور جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا کہ وہ مجرم ہے یا بے گناہ اس وقت تک اس کو اپنے کردار کی پاکیزگی کا ثبوت دینا اور اپنی کارکردگی کی وضاحت دینا اپنے ملوث ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں حقائق وشواہد اکٹھے کرنا چاہیں، آج کے دور میں دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی کرنا بہت مشکل ہوچکاہے، شاید ملاوٹ کی اوسط تو پتہ نہ چل سکے مگر ملاوٹ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ تو ہوسکتاہے۔
ملک کے تمام صوبے اور ان کے عہدیدار بڑی اہمیت کی حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے پاکستان کا چپہ چپہ قربانیوں کی داستان اپنے اندر سموئے بیٹھا ہے بات اچھنبے کی ہے کہ پاک زمین پہ پھلدار اور سایہ دار شجر کے ساتھ ساتھ کیکٹس کے پودے کیسے اُگ آئے ہیں؟ داغدار دامن والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ عزت دار معاشرے میں ماتھے کا کلنک اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو وہ بھی سزا سے نہیں بچ سکتے، جب خلفائے راشدین نے انصاف کے وقت اپنے خون کو بھی سزا وار ٹھہرا دیا تو ہم کیسے وطن عزیز کے گنہگاروں کو معاف کرسکتے ہیں کسی بھی عہدے پہ فائز ہونے سے پہلے حلف لینے والا عوام اور وطن کا امین ہوجاتاہے، اس کیلئے جمہوریت کو نقصان پہنچانا یا مفاد پرست شخصیت بن کے سامنے آنا سنگین جرم ہے، سندھ میں ایک عرصے سے آگ وخون کا کھیل کھیلاجارہاہے چائنہ کٹنگ، فیکٹریوں پہ قبضے، ٹارگٹ کلنگ اس کے ذمہ دار برسراقتدار حکومت رہے، 35سال سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت رہی ایک ہی حکومت کو اتنے سال مل گئے ہیں تو وہاں کا نقشہ بدلنا وہاں بھوک افلاس وبیماری ختم کرنا بے روزگاری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، وہاں کی گندگی، پانی کی قلت، تھر کی عوام کی مفلوک الحالی اور اموات کی شرح کو کم کرنا اقتدار کے جھولے جھولنے والوں کا اولین فرض تھا،35سال کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا نسلوں کی نسلیں سنور جاتی ہیں، پنجاب میں کس قدر شریف خاندان نے کام کیا ہے بے شک ان پہ کرپشن کے الزامات لیکن انہوں نے پچاس کھایا توپچاس لگایا بھی، حالانکہ ان کو اور کئی مخالفتوں کا شدید سامنا بھی رہا مگر پیپلزپارٹی کی صورتحال تو مختلف تھی تو کیا اب وہاں کسی نئی پارٹی کا عروج ہوگا یا ان میں سے ہی کوئی عوام اورصوبے کیلئے جادو کی چھڑی گھماتا منظر عام پر آئے گا، سندھ کی حکومت اور عوام کے جتنے بھی مسائل رہے اس میں یقیناً نوازشریف ، شہبازشریف اور عمران خان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے، عوام اب اتنی باشعور ہوچکی ہے کہ وہ بلاوجہ قربانیاں دینا ہی نہیں چاہتی آج اگر قائداعظم محمد علی جناح زندہ ہوجائیں اور عوام سے قربانی مانگیں تو یقیناً سب جان ہتھیلی پہ رکھے حاضر ہوجائیں گے مگر آج کے لیڈر کیلئے عوام کہتی ہے کہ اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کیلئے ہماری امنگوں کا خون نہ کریں اب تو ہم یہی کہیں گے کہ چور کو جیل میں ہونا چاہیے اور بے گناہ کو پارلیمنٹ میں، صاف دامن، صاف ہاتھ ، روشن پیشانی اوراعلیٰ کردار ہی اب ہماری خوشیوں اور ملکی ترقی کا ضامن ہو۔

مزیدخبریں