کابل (نوائے وقت رپورٹ) افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے گزشتہ روز کہا ہے کہ طالبان کی طرف ے مذاکرات میں افغان حکومت کی شمولیت سے انکار کا مطلب یہ ہوگا کہ 17 برس سے جاری تنازعے کا خاتمہ محض ایک خواب ہی رہے گا۔ طالبان نے قطر میں ہونے والے امریکی اہلکاروں سے مجوزہ مذاکرات اس بات پر منسوخ کر دیئے تھے کہ ان میں افغان اہلکار بھی شرکت کر رہے تھے، امریکہ طالبان لیڈروں پر زور دے رہا ہے کہ وہ افغان حکام کے ساتھ چیت کریں تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ اصل فریق امریکہ ہی ہے اور افغان انتظامیہ درحقیقت امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے کابل میں افغان آئین کے نفاذ کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا امن کیلئے ایک ایسا سمجھوتا کبھی نہیں ہوگا اور محض خواب ہی رہے گا جس میں بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ہمارے شہریوں کے حقوق کا احترام نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ آج کل غیر ملکی فوجوں کو واپس بلانے کی بات کی جاتی ہے اور یہ جنگ کو جاری رکھنے اور مزید مواقع حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہی ہے۔ طالبان کے ایک لیڈر نے نیوز ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے مجوزہ چوتھے دور میں بات چیت کا محور افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلائ، قیدیوں کا تبادلہ اور طالبان لیڈروں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کا خاتمہ ہوتا۔ طالبان لیڈر کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 25,000 قیدیوں کو رہا کرے اور وہ اس کے بدلے 3000 قیدیوں کو رہا کر دیں گے تاہم امریکی اہلکار قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ افغانستان میں جاری جنگ امریکہ کی بیرون ملک فوجی کارروائی میں سب سے طویل شرکت ہے جس سے امریکہ کو لگ بھگ 10 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا اور اس میں اس کے کئی ہزار اہلکاروں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ افغانستان میں امریکی سرکردگی میں فوجوں نے 2001ءمیں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تھا اور اس وقت سے طالبان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی انہوں نے اس سلسلے میں بالواسطہ طور پر پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو ملک طالبان کی حمایت کرتا ہے اس نے بھی بدقسمتی سے اب تک اپنی سوچ نہیں بدلی۔ دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ طالبان پر زور دیتا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں۔
عبداللہ عبداللہ