میری بہت اچھی یادوں میں شامل ہے اور یہ میرا اعزاز ہے کہ میں چودھری ظہور الٰہی سے ملتا تھا۔ ان کی شفقت مجھے ہمیشہ حاصل تھی۔ وہ بہت بہادر اور بہت شفیق آدمی تھے۔ ایک بہت بڑے آدمی کی ساری خوبیاں ان کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ وہ کبھی یہ احساس نہ ہونے دیتے تھے کہ وہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ ان کی دلیریوں کے قصے زبان زد عام ہیں۔
میں ان کو کئی بار ملا۔ ہمیشہ محبت ملی۔ شفقت کی فراوانی ان کے طرز زندگی کا حصہ تھی۔ وہ مکمل معنوں میں ایک بڑے سیاستدان تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت بڑے انسان تھے۔ ایک واقعہ مجھے بھولتا نہیں۔ میں انہیں ملنے کیلئے چودھری ہائوس حاضر ہوا۔ کچھ دیر ان کے ساتھ گپ شپ رہی‘ پھر میں نے اجازت مانگی۔ انہیں معلوم تھا کہ میرے پاس ٹرانسپورٹ کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا بھی نہیں اور مجھے گاڑی میں بٹھا کے نیو ہوسٹل گورنمنٹ کالج لاہور چھوڑنے کیلئے خود گاڑی میں بیٹھ گئے اور خود ہی ڈرائیو کرکے مجھے نیو ہوسٹل چھوڑ کے آئے۔ ہوسٹل میں میرے کمرے تک آئے۔ میں بہت شرمندہ ہوا مگر کچھ نہیں بولا۔
یہ ایک ایسا اعزاز میری زندگی میں تھا کہ میں جس کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ مگر یہ ان کی دوستانہ عظمت کا ایک ہلکا سا اشارہ تھا۔ میں نے بھی کوئی مدافعت نہ کی اور خاموش رہا۔ چودھری گھرانے سے میرا تعلق بہت گہرا اور پرانا ہے۔ چودھری ظہورالٰہی کے بعد چودھری پرویزالٰہی سے بے پناہ تعلق رہا۔ چودھری شجاعت سے میں نے ایک تعلق ہمیشہ محسوس کیا۔ ایسا لگتا رہا کہ کچھ نہ کچھ تعلق ان سے ہے جس کا احساس میرے دل میں تو ہے۔ البتہ چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ ایک تعلق ہمیشہ رہا اور دونوں طرف جس کا احساس رہا۔ میری ذات پر چودھری پرویزالٰہی کے بڑے احسانات ہیں مگر انہیں کچھ یاد نہیں ہوگا۔ میں نے سب کچھ یاد رکھا ہوا ہے مگر اس کا تذکرہ کبھی نہیں کیا۔
صحافیوں نے کسی سیاستدان سے اتنی شفقت اور عزت محسوس نہیں کی جتنی چودھری صاحبان کے ساتھ روابط میں محسوس کی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کو عزت کا احساس دیا جس کا سارا زمانہ معترف ہے۔ بڑا وہی ہے جس سے مل کے آدمی خود کو بڑا محسوس کرے۔ سیاست کا ایک چودھری گھرانہ بچا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
چودھری نثار آجکل خاموش زیادہ رہتے ہیں مگر وہ دھڑلے کے آدمی ہیں۔ دھڑے کے آدمی بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پرفارم کرے اور اپوزیشن کو سانس لینے دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کوئی مصلحت رکھتی ہیں مگر چودھری نثار مصلحت کے آدمی نہیں۔ اس سے ایک مطلب یہ لیا جائے کہ وہ حکومت کے ساتھ اپنی ہمدردی دل میں رکھتے ہیں اور اس کے اظہار میں کوئی مصلحت نہیں سمجھتے۔
حکومت کیلئے ان کا پیام ہے کہ وہ پرفارم کرے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ پوری طرح پرفارم نہیں کر رہی۔ وہ پرفارم کرسکتی ہے اگر وہ چاہے تو…؟ پھر کیا چیز مانع ہے جو حکومت کو اپنی مرضی کے مطابق پرفارم نہیں کرنے دے رہی۔
ظفر بختاوری لاہور آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک دوستی کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں تھے تو بہت مستعد تھے اور دوستانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ وہ لاہور آئے تو برادرم شاہد رشید نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک دوستانہ محفل کا اہتمام کیا۔ کھانے کا بھی بندوبست تھا۔ بہت دوستوں نے شرکت کی۔ نوائے وقت کے انچارج ایڈیٹوریل سعید آسی ، برادر فاروق خ الطاف ، مجیب الرحمن شامی ، ضیا شاہد، جمیل اطہر اثر چوہان، غلام ربانی ملک، ندیم بسرا ، حمزہ گیلانی ، چیف جسٹس محبوب ظفراللہ چودھری، راقم محمد اجمل نیازی، ناہید عمران گل ، سیف اللہ چودھری ، حمزہ سلیم، چودھری زاہد اقبال، چودھری محمد انور، خالد یزدانی کھانے میں شریک ہوئے۔ نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے سیکرٹری ظفر بختاوری مجید نظامی کے قریبی دوست ہیں۔ انہوں نے ہی بختاوری صاحب کو سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ میں نے اسلام آباد کے قیام کے دوران بختاوری صاحب کی کئی محفلوں میں شرکت کی اور کئی ضیافتوں میں بھی شریک ہوا۔ بختاوری صاحب کے ساتھ ایک دوستی ہمیشہ محسوس ہوئی۔ انہوں نے ہمیشہ شفقت کا اظہار کیا۔ ان کی وجہ سے اسلام آباد میں ایک رونق رہتی ہے۔
بہ اہتمام دوستوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے لئے محبت کا اظہار کیا۔ یہ پودا جناب نظامی صاحب نے لگایا تھا۔ جسے شاہد رشید نے قائم رکھا ا ور خوب نگہداشت کی۔ یہاں اس طرح کی بھرپور محفلیں ہوتی رہتی ہیں۔
اسلام آباد میں ظفر بختاوری صاحب بہت اہتمام سے محفلیں کرتے ہیں اور خوب رونق لگاتے ہیں۔ میں نے خود ایسی محفلوں میں کئی بار شرکت کی ہے۔ لاہور سے نظریہ پاکستان کے ساتھ محبت رکھنے والا کوئی دوست اسلام آباد جاتا ہے تو اس کے اعزاز میں محفل سجائی جاتی ہے ۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ میں بھرپور اجتماع
Jan 10, 2019