اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور مشرق وسطی میں پائی جانے والی کشیدگی اور خطے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میںکشیدگی میں اضافہ، خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے ۔دونوں وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا کہ اس کشیدہ صورتحال کو قابو میں لانے کیلئے، فریقین کو تحمل کامظاہرہ کرنا ہو گا۔ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کا اصولی موقف دہراتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان خطے میں کسی نئے تنازعہ میں فریق نہیں بنے گا۔ اور نہ ہی پاکستان کی سرزمین کسی علاقائی و ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہو گی۔ خطے میں قیام امن کیلئے دونوں وزرائے خارجہ کا مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے پر اتفاق کیا گیا۔ علاوہ ازیں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے امور خارجہ کو بتایا ہے کہ ہمارا خطہ کسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کشیدگی میں کمی لانے کیلئے پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرنے کیلئے پر عزم ہے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی کیلئے رابطے جاری ہیں۔ اس ضمن میں ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ میری گفتگو بہت مفید رہی۔ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے امور خارجہ کا اجلاس، چیئرمین مجلس ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ کی زیر صدارت دفتر خارجہ میں منعقد ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے اجلاس میں شرکت کی اور شرکاء کو وزیر خارجہ کی مشرق وسطی کی صورتحال, مودی حکومت کے امتیازی قوانین، مسئلہ کشمیر سمیت اہم سفارتی امور پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت نے متنازعہ ترمیمی شہریت ایکٹ، اور این آر سی جیسے امتیازی قوانین مسلط کئے جس میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ قوانین "ہندو رشٹرا" منصوبے اور سوچ کی ایک کڑی ہے۔ یہ وہ ہندوتوا سوچ ہے جسے مودی سرکار ہندوستان میں مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ان قوانین کے خلاف سیکولر سوچ کے حامل ہندوستانی سراپا احتجاج ہیںکیونکہ ان قوانین کا اطلاق، بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔ ہندوستان میں بھارتی اقدامات کے خلاف احتجاج میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور اس احتجاج کا دائرہ اب پورے ہندوستان میں پھیل چکا ہے۔ صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ وزیر اعظم مودی کو اپنا آسام کا طے شدہ دورہ کینسل کرنا پڑا۔ امہ کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں اور ہم انہیں مزید مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔فروری میں وزیر اعظم عمران خان ملائشیا کا دورہ کریں گے اور ترک صدر رجب طیب اردوغان اگلے ماہ پاکستان آئیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو سراہا گیا۔ ہم نے واضح طور پر کہا کہ ہماری سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔سی پیک کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کیلئے ہم پر عزم ہیں۔چیرمین پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر سید فخر امام نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں موجودہ صورتحال کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے۔ خارجہ پالیسی کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کیلئے، وزارتِ خارجہ کی طرف سے شروع کئے گئے نئے سلسلے"ایف ایم کنکٹ" کی تیسری نشت کا گزشتہ روز دفتر خارجہ میں انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی وزارتِ خارجہ میں درس و تدریس سے وابستہ نابغہ ء روزگار شخصیات اور دانشوروں سے خصوصی ملاقات کی۔ وزیر خارجہ نے درس و تدریس سے وابستہ شخصیات کو خطے کی مجموعی صورتحال اور حکومت کی خارجہ پالیسی ترجیحات سے آگاہ کیا۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزارتِ خارجہ میں قائم نئے قونصلر ہال کابھی افتتاح کیا۔سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، اسپیشل سیکرٹری معظم احمد خان ترجمان وزارت خارجہ عائشہ فاروقی اور وزارتِ خارجہ کے سینئر حکام بھی وزیر خارجہ کے ہمراہ تھے۔