ٹرمپ بش کے نقش قدم پر۔۔۔۔۔

ایران کی جانب سے عراق میں واقع امریکی عسکری اڈوں پر میزائلوں سے حملے کئے گئے تھے۔ ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ ان میزائلوں سے کم ازکم 80 افراد مارے گئے ہیں۔ ایران کے اس دعوے کے بعد پوری دنیا کو وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کا انتظار تھا جسے صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر کی صورت میں واضح کیا ہے۔ ’ہم نے قبل ازوقت خبردار کرنے والا پورا نظام تیار کیا تھا اور اس کی وجہ سے فوجی عملہ حملے سے قبل ہی منتشر ہوچکا تھا۔انہوں نے اپنی تقریر میں الزام عائد کیا کہ ایران خطے میں عدم استحکام کی کوشش کررہا ہے، لیکن اب وہ دور گزرچکا ہے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے ایران پر مزید پابندیوں کا عندیہ بھی دیا۔تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ حملے میں فوجی اڈے کو معمولی نقصان پہنچا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی نے عراق میں موجود امریکیوں پر حملے کے احکامات دیئے تھے۔ اس لیے امریکا نے اْنہیں نشانہ بنایا۔
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی امریکا پر مزید حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے لیکن ہم نے انہیں روک دیا۔ البتہ ایران کی طرف سے مزید انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنگ کا خطرہ تھوڑا سا کم ہوا ہے۔
ایران کو امن کی پیشکش کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جو امن چاہتا ہے امریکا اس کے ساتھ امن کے قیام کے لیے تیار ہے۔ امریکی صدر نے داعش کے خاتمے کے لیے بھی ایران کو مل کرکام کرنے کی پیشکش کردی۔جنرل سلیمانی کی موت نے امریکہ اور ایران
کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ اپنا وعدہ دہرایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے امریکی فوجی دستے واپس بلا لیں گے۔لیکن ان کے دور میں امریکہ اور ایران کے تعلقات مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں جبکہ تہران کے ساتھ جوہری معاہدہ بھی ختم کر دیا ہے جو ان کے مطابق ایک غلطی تھی۔ایران سے جنگ کی صورت میں سب سے پہلے دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سب سے بڑا خطرہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔ تیل کی قیمتیں بڑھتے ہی ملک میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آ سکتا ہے جو پہلے ہی بے قابو ہو رہی ہے۔ جنگ کی صورت میں پاکستان کا نقصان اتنا نہیں ہو گا جس قدر یورپی یونین یا دیگر مغربی ممالک کا ہو سکتا ہے۔جنگ کی صورت میں تیل کی سپلائی بند یا متاثر ہونے سے قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایران اور امریکہ دونوں ہی جنگ کا پھیلاؤ نہیں چاہتے۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران کو اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے تھے جو امریکی فوجی اڈوں پر حملے کی صورت میں نظر آئے ہیں۔امریکہ کو عراق میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے بلکہ وہاں ایران کی حمایت میں عوامی جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایسے ملک میں بیٹھ کر کسی دوسرے ملک سے لڑائی لڑنا مشکل امر ہے۔صدر ٹرمپ بھی سابق صدر بش کی طرح غرور کے نشے میں امریکہ کو ایک مرتبہ پھر غیر محفوظ کر رہے ہیں۔ امریکہ کے اندر ایرانی عوام کی جانب سے بھی رد عمل کا امکان ہے۔ کوئی ایک آدھ حادثہ رونما ہو گیا تو ٹرمپ کو ایران سے جنگ کا جواز مل جائے گا۔ نائن الیون کے واقعہ کا عقدہ آج تک نہیں کھل سکا لیکن صدر بش نے اس واقعہ کو جواز بنا کر افغان عراق پر جنگ مسلط کر دی اور پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ٹرمپ بھی بش کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں امریکہ کا جنگی اتحادی بننے کا عظیم بلنڈر کر لیالیکن دوبارہ بلنڈر کرنے سے پہلے فرعون کا تکبر یاد رکھے۔ ٹرمپ بھی بش کی طرح فرعون کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔فرعون کے خوف سے لوگوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی، حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔ قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے ہوگااور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا۔ حضرت اوس بن شرجیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جو شخص کسی ظالم کی مدد کیلئے، اور اس کا ساتھ دینے کے لئے چلا اور اس کو اس بات کا علم تھا کہ یہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا۔ ظلم کا ساتھ دینا، اور ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کی کسی قسم کی مدد کرنا، اتنا بڑا گناہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو اسلام سے نکل جانے والا قرار دیا ہے۔ام المومنین ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ حذیفہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''یقیناً تم پر عنقریب ایسے حکمران بنائے جائیں گے کہ تم ان کے بعض اعمال کو پسند کرو گے اور بعض کو ناپسند کرو گے، پس جس شخص نے (ان کے ناپسندیدہ کاموں کو) ناپسند کیا اورانکار کیا تو وہ (اس معصیت سے) بچ گیا لیکن جو راضی ہوگیا اور پیروی کی تو وہ ہلاک ہوگیا"۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔‘‘امریکہ کا ایرانی جنرل کو مارنا سیاسی بلنڈر ہے۔امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کا مزید بلنڈر کرے تو پاکستان امریکہ کا اتحادی بنے لیکن ظلم کا اتحادی مت بنے۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...