پاکستانی قوم کو اِس وقت حوصلہ دینے اور تابناک مستقبل کی یقین دہانی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسلام دشمن عالمی قوتوں نے چہار اطراف سے اس مملکت خداداد پر یلغار کررکھی ہے۔ مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اسکی وحدت اور سالمیت کے خلاف اپنی اپنی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان میں پاکستان کاازلی دشمن بھارت تو سرفہرست ہے مگر ایسے کچھ دوست نما دشمن بھی شامل ہیں جو ماضی قریب میں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتے نہ تھکتے تھے۔ ان حالات میں عوام کی ہمت بڑھانے اور اُنکے دل و دماغ پر مادرِ وطن کی عظمت کے نقوش کو مزید گہرا کرنے کی خاطر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی جنرل کونسل نے اپنے 13ویں سالانہ اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ 2022ء میں قیام پاکستان کو 75سال پورے ہوجائینگے‘ لہٰذا نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام اس سال کو پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے طور پر منایا جائے۔ یہ اجلاس 26دسمبر 2020ء کو ایوانِ قائداعظمؒ، جوہر ٹائون‘لاہور میں ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف کی زیر صدارت ہوا جس میں اس حوالے سے ایک جامع پروگرام کی منظوری دی گئی۔ جنرل کونسل کی طرف سے حکومت سے اپیل کی گئی کہ یہ تقریبات سرکاری طور پر منائی جائیں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کا آغاز یکم اگست 2021ء کو یک پُروقار تقریب منعقد کرکے کیا جائے جس کے مہمانانِ خاص کارکنان تحریک پاکستان ہونگے۔ واضح رہے کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو جدوجہد آزادی کے نامور کارکنوں کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل ہے جن میں سابق صدر مملکت محمد رفیق تارڑ‘ چیف جسٹس(ر)میاں محبوب احمد‘ جسٹس(ر) خلیل الرحمن خان‘ میاں فاروق الطاف‘ سرتاج عزیز‘ سید غوث علی شاہ‘ کرنل(ر)سلیم ملک‘ بیگم خالدہ منیر الدین چغتائی‘ میاں محمد ابراہیم طاہر‘مرزا محمد اسلم اور خواجہ خورشید وائیں شامل ہیں۔علاوہ ازیں جنرل کونسل کے مذکورہ اجلاس میں ممتاز مسلم لیگی رہنما راجہ ظفر الحق اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی اس پروگرام کی تائید و حمایت کی۔ خانوادۂ علامہ اقبالؒ کے جانشین سینیٹر ولید اقبال جو نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے انتہائی فعال ٹرسٹی ہیں‘ اس پروگرام کے سلسلہ میں بہت پرجوش دکھائی دیے۔ اُنہوں نے حکومتی سطح پر ان تقریبات کے انعقاد کیلئے تمام متعلقہ شخصیات سے رابطہ کاری کا یقین دلایا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری شاہد رشید کے مطابق رہبر پاکستان اورمحترم مجید نظامی کی قیادت میں اس قومی نظریاتی ادارے کے تحت 1997ء میں قیامِ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات ملی اور قومی جوش و جذبے سے منائی گئیں جن میں تمام شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ قارئین کرام! ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے حوالے سے جاری کردہ پروگرام اس قدر جامع اور تفصیلی ہے کہ اسے ایک کالم کے دامن میں سمونا ممکن نہیں ہے تاہم اس میں درج مقاصد کا اجمالی تذکرہ مناسب ہوگا۔ ان مقاصد میں دو قومی نظریہ کو ایک زندہ اور روزمرہ حقیقت کے طور پر اجاگرکرنا‘ عوام میں وطن عزیز کے روشن مستقبل کا یقین اور احساسِ تفاخر پیدا کرنا‘ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر مشاہیر تحریک پاکستان کی عظیم الشان جدوجہد‘ ایثار اور قربانیوں سے نسل نو کو روشناس کرانا‘ آزادی کی نعمتوں‘ کامیابیوں اور کارناموں کا تذکرہ‘ قومی اداروں کو تحریک پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں ڈھالنے کیلئے قومی احساسات بیدار کرنا اور نصاب تعلیم کی مختلف سطحوں میں نظریۂ پاکستان اور مشاہیر تحریک پاکستان کی حیات و خدمات کو شامل کرانا ہے۔ ان تقریبات کے دوران عوام کو ان حالات کی یاد دہانی کرائی جائیگی جو قیام پاکستان کے وقت درپیش تھے۔ پاکستان کے خلاف منظم بیرونی منصوبوں کو بے نقاب کیا جائیگا۔بالخصوص مغرب کے تھِنک ٹینکس کی پاکستان کے متعلق گمراہ کُن رپورٹوں کا تجزیہ کرکے اُنہیں بے نقاب کیا جائیگا۔ہماری ثقافت‘ تہذیب‘ زبان اور قومی تشخص پر جو حملے ہو رہے ہیں‘ ان کا مناسب جواب دیا جائیگا۔ اسلامی اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کی اہمیت و عظمت بیان کی جائیگی۔ عوام الناس کو باور کرایا جائے گا کہ قائداعظم کی زیر قیادت تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہوئی جس کی بدولت پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان آج جتنی آزادی اور جرأت سے زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع رکھتے ہیں‘ بھارت کے مسلمانوں کوایسی آزادی اور جرأت حاصل نہیں ہے۔ آزادی کی قدر و منزلت سے نسلِ نو کو آگہی دی جائیگی۔ پروگرام میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان سے ایک نمائندہ وفد بنگلہ دیش میں نواب سلیم اللہ خان، مولوی اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین کے مزارات پر حاضری دینے کیلئے بنگلہ دیش کا دورہ کرے۔یہ وفد ’’احسان منزل‘‘ پر بھی جائے جہاں مسلم لیگ کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا تھا اور تحریک پاکستان میں حصہ لینے والی شخصیات سے ملاقات کرے۔ایک انتہائی اہم تجویز یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جدوجہد آزادی (1947ء تک) کے حوالے سے جو علمی و تحقیقی کام ہوا ہے‘ اس سے استفادہ کیا جائے۔پاکستان اور بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) ہر دو ممالک اپنے شاندار ماضی کے ورثہ کو محفوظ اور اُجاگر کرنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں تاکہ نئی نسل کو پتہ چلے کہ دونوں خطوں کے عوام نے کس طرح انگریز سامراج اور ہندو بنیے کو باہمی جدوجہد سے شکست دے کر آزادی حاصل کی تھی۔