سبھی اقوام حادثات و سانحات کا شکار ہوتی ہیں مگرہم اس ملک کے پروردہ ہیں جہاں حادثات و سانحات کوطبقاتی اور تفرقاتی نفرتوں کاتسلسل کہہ کر اپنی غفلتوں اور ناقص حکمت عملیوں سے نظریں چرائی جاتی ہیں اور ایسے د لائل تراشے جاتے ہیںجن سے گمان گزرے کہ مذکورہ المناکیوں اور غمناکیوں کو روکنا یا مظلوموں کی مدد کرنا کسی کے بس میں نہیں تھاباایں وجہ لواحقین کے ساتھ ماتم کرکے چند روزہ سوگ منا کر اشک بہائے جاتے ہیں پھر جس کا غم وہی جانے ‘لو ہم تو چلے دیوانے مزید اگر زیادہ کریدا کیا جائے تو بے حس معاشرہ یہ بھی کہہ گزرتاہے کہ’’ مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں ۔۔اس دورِ ناگوار میں جینا محال ہے ‘‘۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ احساس زیاں دم توڑ چکا ہے ‘ ہم من حیث القوم نہیں‘ من حیث الگروہ جی رہے ہیں‘ اپنی اپنی ڈفلی اپنے اپنے راگ ہیں اوراپنوں سے ہی نبرد آزما ہیں یہی وجہ ہے کہ حادثات پر رکتے نہیں اور المیوں پر آواز بلند کرتے نہیں جس کا نقصان بھی ہمیں ہو رہا ہے کہ ہمارے شہر جل رہے ہیں ‘ہمارے لوگ مر رہے ہیں۔اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ تاریخ پاکستان ایسی المناکیوں اور حوادث سے بھری پڑی ہے جب زندگی و موت کا رقص سر عام دیکھا گیا اور جارحیت و بربریت کو وقت ٹپائو ’’ نوٹس ‘‘ اور ’’جے آئی ٹی ‘‘ سے نپٹا دیا گیا کیونکہ روز اول سے ہی پاکستان کو جاگیر دارانہ نظام نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ طبقاتی اختلافات بڑھتے چلے گئے اور فرقہ وارانہ سوچ کو بھی ہوا مل گئی نتیجتاً ہر سرمایہ دار اپنے دائرے میں فرعون بنا بیٹھا ہے جس کاجہاں جو بس چلتا ہے وہ کرتاہے جبکہ غریب ہر جگہ کچلا جاتا ہے چنانچہ اب اس سوچ کو اتنی تقویت مل چکی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ افراد کے خاتمے سے ہی محنت کش طبقے کی نجات ممکن ہے جو کہ نا ممکن ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی تفریق جب سے دنیا ہے تب سے موجود ہے بس کچھ اقوام میں حکمرانوں کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے تقسیم ٹھیک نہیں رہی یعنی طاقت اور سرمایہ جس کے بھی پاس آجاتا ہے وہ شخص با اثر بن جاتا ہے اور با اثر افراد ہر قسم کے آئین و قانون سے آزاد ہوتے ہیں جس کی کھلی مثالیں موجود ہیں درحقیقت یہی طبقاتی اختلافات جب کشمکش کی صورت میں بڑھتے ہیں تو انقلاب رونما ہوتے ہیں‘ اب بھی انقلاب نا گزیر ہوچکا ہے ۔۔یقینا تبدیلی سرکار نے ایسے ہی انقلاب کا نقارہ بجایا تھا جومناسب تقسیم اور قانون و انصاف کی بلا تفریق فراہمی سے ٖغربت کا خاتمہ کر دے گا مگر غریب ہی ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور حالات یہ بن چکے ہیں کہ :’’اب نہیں کوئی بات خطرے کی ۔۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے ‘‘ ۔
ویسے بھی سوشل میڈیائی دور ہے اورکس کو ہوش ہے کہ ارد گرد دیکھے اور سوچے کہ اب کسی کے قتل ہونے پر سرخ آندھیاں کیوں نہیں چلتیں ،اب بے گناہ قتل پر آسمان سے وحشتیں کیوں نہیں برستیں ، اب ہوائیں بین کیوں نہیں کرتیں ،اب پرندے آسمان کی وسعتوں میں پھیل کر ہولناک انجام سے کیوں نہیں ڈراتے ، اب کسی کو کسی دوسرے کی ماں ، بہن اور بیٹی کو بے آبرو کرتے ہوئے مکافات عمل سے ڈرکیوںنہیں لگتا ،اتنی بے حسی کیوں ہوگئی ہے کہ غریب کا لہو پانی سے سستا ہے کہ اس کے جان و مال لٹنے پر کسی کو کوئی خاص افسوس نہیں ہوتا بلکہ کرتا دھرتا بر ملا کہتے ہیں کہ چھوڑو یار ایسے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں ۔جون ایلیا نے سچ کہا تھا :’’ کون سیکھتا ہے صرف باتوں سے ۔۔سب کو ایک حادثہ ضروری ہے ‘‘وائے افسوس! ضمیر نہیں کانپتے یہاں زمین کانپ جاتی ہے ۔زمین کانپی ہوگی جب بائیس سالہ نوجوان کو اندھا دھند گولیاں ماری گئیں ہونگی ۔۔سبھی جانتے ہیں کہ پولیس گردی کا شکار ہونے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے مگر کیا کریں کہ ہر طرف دیوانگی ہاتھوں میں ہے پتھر لیے ادھر محافظوں کا گلہ اور ادھر راہزنوں نے کئی گھروں کے چراغ بجھا ڈالے نئے برس کے آغاز میں’’سانحہ مچھ‘‘ پورے پاکستان کو دکھی کر گیا۔تبھی تو کہتی ہوں کہ آپ اگر خلفائے راشدین کی ہی پیروی کر لیں تو بڑی بات ہے اوررہ گئی بات اپوزیشن کی تو انکے دور اقتدار میں ایسے المناک سانحات اور بے حسی کی تاریخ رقم ہے اس بچے کو کون بھول سکتاہے جو میاں نواز شریف کی گاڑی پر پھول برساتا گاڑی کے نیچے آگیا تھا اور شاہی قافلہ بچے کو ’’جمہوریت کا شہید ‘‘ قرار دیتا گزر گیا تھا پھر یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے سیکیورٹی اسکوارڈ کو اوور ٹیک کرنے پر طاہر ملک کے سر میں گولی مار دی گئی تھی۔
بہر حال موجودہ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑ رہے ہیں عوام الناس کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر مثبت حکمت عملیاں نا گزیر ہوچکی ہیں اور وقت متقاضی ہے کہ مظلوموں کی داد رسی ہو اورذمہ داران کو فوری طور پر منطقی انجام تک پہنچایا جائے پھر وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو کیونکہ عوام الناس میں نفرت و غصے اور عدم اعتماد کی جو آگ پھیل رہی ہے اس کے شعلے بلند ہو رہے ہیں اوریاد رکھیں کہ پھول شعلوں میں نہیں کھلتے۔