پاکستان ریلوے کیلئے پچھلا سال باقی دنیا سے مختلف نہیں رہا۔ کرونا ریلوے کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا لیکن کرونا کے زور پکڑنے پر ٹرین آپریشن معطل ہونے کے باوجود نہ ہی ریلوے دفاتر بند ہوئے اور نہ ہی روٹین کا کام متاثر۔ اذا خیل ڈرائی پورٹ اور فیصل آباد ڈرائی پورٹ تو کرونا سے پہلے ہی تیار ہوگئے تھے کیونکہ ریلوے میں 2020 کو فریٹ کا سال ہونا تھا اور پھر کرونا آگیا ۔ ایمرجنسی میں ریلوے نے تمام ہسپتالوں کو آئسولیشن وارڈز میں تبدیل کیا۔ ریلوے کے 8 ہسپتال اور 36 ڈسپنسریوں کو بطور آئی سولیشن وارڈ استعمال کرنے کیلئے تمام صوبائی حکومتوں کو آفر کی گئی۔ یہ سال سبھی کیلئے مشکل تھا لیکن ریلوے کے مزدور اور افسر سے لے کر وزیرتک سبھی نے ادارے میں جان پھونکے رکھی۔ کرونا فنڈز میں اپنی تنخواہیں دیں۔ اس چیلنج کو موقع میں تبدیل کیا اور نئے پراجیکٹ کی تیاری کی گئی۔ اس سلسلے میں چیئرمین ریلوے حبیب الرحمن گیلانی کا کردار کلیدی رہا جنہوں نے ریلوے کو کارپوریٹ طرز پر منتقل کرنے کی تیاری انہی مشکل دنوں میں کی۔ کارپوریٹ سیکٹر سے مراد یہ نہیں کہ ادارہ کسی پرائیویٹ کمپنی کی طرح صرف پیسے بنانے پرتوجہ دے۔ یہ نئی سمت کارپوریٹ سیکٹر کی طرح مسافروں کی شکایات کا ازالہ، کسٹمر کیئر اور اوقات کار بہتر کرنے کیلئے ہے جس کیلئے تعمیرِصلاحیت و استعداد کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے قانونی امور، کسٹمر کیئر، فنانس اور انسانی وسائل کے مشیر پرائیویٹ سیکٹر سے مستعار لیے جارہے ہیں جبکہ انسانی وسائل کے مشیر ریلوے میںتعیناتی کے بعد اپنا کام شروع کرچکے ہیں۔ریلوے کا سب سے اہم مسئلہ ٹریک اور سگنل سسٹم ہے اس کی وجہ سے اوقات کار متاثر ہوتے ہیں۔ 2020 میں تاریخی اہم پیشرفت ایم ایل ون کی منظوری تھی جس کے تحت کراچی سے پشاور تک 1872 کلومیٹر لمبے ٹریک کی بحالی ،نیا سگنل سسٹم، برج اور انڈر پاسز بنائے جائینگے۔2021 میںباضابطہ طور پر یہ خواب شرمندہ تعبیرہوگااور ایم ایل ون کے پہلے حصے میں لاہور۔راولپنڈی۔سکھر۔ملتان ڈویژنوں میں پھیلا 706کلومیٹر کا ٹریک 5 سال کے عرصہ میں اپ گریڈ کیا جائے گا۔ اس اثناء میں ML-II کو نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ پہلی بار ٹریک کو ٹھیک کرنے کی دعوت پرائیویٹ سیکٹر کو دی گئی اس سے پہلے یہ کام ریلوے خود کرتا تھا۔ ML-II (1254)کلومیٹر کوٹری سے اٹک تک کا یہ ٹریک بطور متبادل روٹ اور کارگو کیلئے بہترین ٹریک ہے۔ آنیوالے وقت میں اسلام آباد، ایران، ترکی کارگو ٹرین ہو یا ٹرانز افغان ریلوے بچھانے کا پراجیکٹ جو وسطی ایشیائی ریاستوں کو بحیرہ عرب تک رسائی دیگا۔ ان سب میں پاکستان ریلوے کی مین لائن ML-I، ML-II اور ML-III (روہڑی تا چمن 296 کلومیٹر) کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں ML-II کا ٹینڈر ہوچکا اور یہ مین لائن جون 2022 تک اپ گریڈ ہوجائے گی۔ کے سی آر ریلوے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جزوی بحال کردی گئی جوکہ تجاوزات ہٹانے کے بعد 3 مرحلوں میں مکمل بحال کردی جائے گی۔ تیسرے مرحلے میں کے سی آر کو جدید اربن ٹرانسپورٹ کادرجہ دے دیا جائیگا۔ اس کیلئے 8705 ملین روپے درکا ہوں گے او ر اپ گریڈیشن کے بعد ٹرینوں کی تعداد 48 مسافروں کی گنجائش 24000 اور دورانیہ صرف 19 منٹ رہ جائیگا۔ کراچی پورٹ اور پپری کے درمیان کارگو ٹریفک کیلئے خصوصی فریٹ کا ریڈور بھی بنایاجائے گا۔ یہ پراجیکٹ بھی پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے بنایا جائے گا۔ فی الحال 820 ہائی کپیسٹی ویگن اور 230 مسافر کوچز خریدنے اور تشکیل دینے کیلئے بین الاقوامی ٹینڈر ہوچکا۔ اس کے علاوہ 100 انجن کی خصوصی مرمت اور 5 ایسے انجن جو مختلف حادثات میں تباہ ہوگئے انکی مرمت پی ایس ڈی پی میں منظور کرالی گئی ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ 600 کوچز کی مرمت اور 1200 ویگنوں کی مرمت اسکے علاوہ ہیں۔ سب سے اہم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر 5000 ویگنیں اور 1000 مسافر کوچز کو بنانے کا منصوبہ ہے جو یہاں پاکستان ریلوے کی فیکٹریوں میں بین الاقوامی مکنیکل اور ریلوے انجینئرنگ کے ماہرین کی مدد سے مکمل کیا جائیگا۔ واضح رہے کہ اس پر اجیکٹ کیلئے بھی بین الاقوامی کمپنیوں سے expression of interestطلب کیا جاچکا ہے۔ پاکستان ریلو ے 2020میں ٹریکر کی سہولت کے ساتھ معذوروں اور بوڑھے افراد کی آن لائن ٹکٹنگ کا اجراء بھی کرچکاہے۔ مسافروںکا آن لائن بکنگ کی طرف خاصا رجحان ہے اور اس وقت آن لائن ٹکٹنگ 60 سے 70 فیصد تک پہنچ گئی۔’ رابطہ‘‘ کے نام سے خاص interface لانچ کیا گیا ہے جس کے بعد مسافر ٹی ٹی ،بکنگ سٹاف یا کسی ریلوے عملہ کے رحم وکرم پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اپنی سیٹ فون سے چلتی ٹرین میں بھی بُک کراسکے گااس حوالے سے پائلٹ پراجیکٹ میں راولپنڈی اور لاہور کے درمیان ریل کار عملے کو ہینڈ ہیلڈر ڈیوائس دے دئیے گئے ہیں جن کے ذریعے ٹکٹ کے پیسے ٹرانسفر اور بکنگ سب آن لائن ہوگی۔ ریلوے نے آٹو میشن کی طرف بڑھتے ہوئے تمام ملازمین کا ڈیٹا بھی سافٹ ویئر سے لنک کردیا۔پنشنر ز کو بھی اب پنشن اُنکے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ پنشنز کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے خصوصی پنشن فنڈ قائم کیا جارہا ہے۔پاکستان ریلوے نے حادثات اور خاس طور پر لیول کراسنگ حادثات کو کنٹرول کرنے کیلئے 1600 غیر قانونی راستے بند کردیئے ہیں۔ پاکستان ریلوے اسی سال اپنی کالونیوں کو ڈسٹریبوشن پاور کمپنیوں کے حوالے کرے گا اور بجلی کے نئے میٹر لگائے گا جس سے ڈھائی ارب کی بچت متوقع ہے۔ ریلوے کو لفظ خسارہ کے ساتھ نتھی کردیاگیاہے۔ ریلوے پرائیویٹ کمپنی نہیں جو صرف پرافٹ یا آمدن کیلئے کام کرتی ہے مثلاً کراچی سے پشاور تک کا کرایہ 1600 روپے ہے کیا کوئی اور ٹرانسپورٹ سروس اتنے کم کرائے میں پسنجر کوسفری سہولت دیتی ہے؟ریلوے عوام دوست سواری ہے جس کی پبلک کی طرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سستا اور محفوظ سفر عوام کو فراہم کرے۔ پوری دنیا میں ریلوے فریٹ سے کماتی ہے اور عوام یعنی اپنے مسافر کو سہولت دیتی ہے۔ اوپر بیان کیے گئے تمام پراجیکٹس فریٹ بڑھانے میں اہم ہیںپاکستان ریلوے بھی حکومت سے سبسڈی لیتا ہے تاکہ پسنجر کو سستا اور محفوظ سفر میسر ہو اور پنشنرز کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔ جلد ہی پاکستان ریلوے سی پیک اور دیگر پراجیکٹس کے ذریعے اپنا احیاء کریگا۔ وزیر ریلو ے اعظم خان سواتی کی سربراہی میں چیئرمین ریلوے حبیب الرحمن گیلانی ،چیف ایگزیکٹوآفیسر پاکستان ریلویز نثار احمد میمن ریلوے کو نہ صرف درست سمت دے رہے ہیں۔قبضہ مافیا کو وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے صاف ا ور واضح پیغام دیاہے۔ چند دنوں میںسوا دو ارب مالیت کی اراضی واگزار کرائی گئی ہے۔ وزیر ریلوے نے محفوظ سفر، بااخلاق عملہ، صحیح اوقات کار اور صفائی کا پالیسی بیان دے کر بہتر اور عوام دوست ریلوے کے سفر کو آگے بڑھایاہے۔