امریکہ کا سیاسی مستقبل؟

Jan 10, 2021

جمیل اطہر قاضی

ا سے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کا امن تباہ کرنے والے عصر حاضر کے فرعونی ذہنیت کے امریکی حکمرانوں کا اپنا امن اور سکون برباد ہوگیا۔حالیہ انتخابات میں جوبائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کو شکست کیا ہوئی، اس نے امریکی آئین اور جمہوری اقدار کو ہی پامال کردیا۔ یہ امریکی تاریخ کا سیاہ دن تھا کہ نو منتخب صدر جوبائیڈن کی الیکٹورل کالج میں فتح کی باقاعدہ تصدیق کیلئے کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس نائب صدر مائیک پنس کی زیر صدارت جاری تھا کہ اس دوران صدر ٹرمپ کے حامی سیکیورٹی حصار توڑ کر ایوان میں جا گھسے ۔مظاہرین نے سپیکر نینسی پلوسی کی کرسی پر قبضہ کر لیا ، پولیس کے روکنے پر مظاہرین نے پارلیمان کی عمارت کے شیشے توڑ ڈالے۔ حالات اتنے بے قابو ہو گئے کہ نائب صدر مائیک پنس اور دیگر ارکان نے بھاگ کر جان بچائی ، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور عمارت خالی کرا لی گئی ، پولیس سے جھڑپوں پر سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر شیلنگ اورفائرنگ کر دی حالات پر قابو پانے کے لئے سپیکر نینسی پلوسی کو فوج بلانا پڑی۔ اب تک ہونے والے ہنگاموں میں پانچ افراد ہلاک ہو چکے ،پارلیمان کے گرائونڈ فلور سے دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا جسے ناکارہ بنا دیا گیا۔ یہ امریکی پارلیمانی تاریخ میں 159 سال بعد پیش آنیوالا اپنی نوعیت کا اہم واقعہ ہے کہ مظاہرین دوران اجلاس پارلیمنٹ کی عمارت میں گھس گئے یوں ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن کے مابین اس سیاسی جنگ نے امریکہ کی مسلمہ جمہوری اقدار پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ جوبائیڈن اور ٹرمپ دونوں کے حامی ایک دوسرے کو امریکی آئین کی پابندی کا درس دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں امریکہ میں اس یوم سیاہ کے ذمہ دار نہیں ۔ ٹرمپ کے حامیوں کا بضد رہنا کہ وہ صدارتی انتخابات کے نتائج کبھی تسلیم نہیں کرینگے، حالات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف لے جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا یہ مطالبہ بھی عقل سے بالا تر ہے کہ نائب صدر پنس صحیح کام کریں اور صدارتی نتائج کی توثیق نہ کریں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ کام ملک کے نامور آئینی وکلاء کے ذریعے کرنا ہے کہ ایسا کرنا ان کا حق ہے جبکہ نائب صدر مائیک پنس نے ٹرمپ کا یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے انہیں حلف کی پاس داری کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ انتخابات میںشکست خوردہ ٹرمپ نے امریکی آئین اور جمہوری اقدار کو پس پشت ڈال کر انتقال اقتدار کے سلسلے میں امریکی وکلاء کی مشاورت کو کیوں اہمیت دی ہے۔امریکہ میں اقتدار کی رسہ کشی کے اس عالم میں بڑھنے والے سیاسی تنائو کے باعث حالات کی سنگینی کے پیش نظر جمعرات کے روز مئیر مورئیل بائوزر نے واشنگٹن ڈی سی میں شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک کرفیو لگا دیا تاکہ اس سیاسی تنائو میں جانی و مالی نقصان نہ ہو۔
 انتخابات میں شکست کے بعد ٹرمپ کے رد عمل پر جمہوریت پر یقین رکھنے والی مہذب دنیا انگشت بدندان ہے کہ دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والے ٹرمپ خود کون سا راستہ اختیار کر رہے ہیں کہ انہوں نے اقتدار کی ہوس میں امریکی عوام کا وقار اورسکون دائو پر لگا دیا ہے ۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکہ میں تشدد کے ان واقعات کی سخت مذمت کی ہے ،فرانسسی وزارت خارجہ امور نے کہا ہے کہ ہم امریکی جمہوریت پر حملہ کی پُر زور مذمت کرتے ہیں ۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کیپٹل ہل پر حملے کو ’’بنانا ریپبلک‘‘ سے تشبیہ دی ہے سابق صدر براک اوباما نے بھی ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ،کینیڈا کے وزیرا عظم جسٹن ٹروڈو نے بھی کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے حدود کے بغیر نہیں ہونی چاہیے ،یورپی یونین نے بھی امریکہ میں پیش آنیوالے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس سے امریکی سا لمیت کیخلاف قرار دیا ہے۔ ٹیٹو چیف نے کہا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں دل دہلا دینے والے مناظر نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔اس حوالے سے عالمی سطح پر پایا جانے والا اضطراب اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ میں جو کچھ ہوا ہے اس سے جمہوریت اور مستقبل میں جمہوری عمل کیلئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اس واقعہ سے امریکی عوام بالخصوص امریکہ میں مقیم غیر ملکی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں ۔
 ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس وقت جتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیںوہ ٹرمپ انتظامیہ کیلئے انتباہ ہیں ،لیکن ٹرمپ نے حسب عادت اس انتباہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی متعصبانہ پالیسی جاری رکھی ، اب نئی آنے والی حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے سیاسی سطح پر اقدامات کرنا ہونگے وگرنہ تشدد کی آگ کے یہ شعلے بھڑکتے چلے جائینگے۔ امریکہ میںسیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
عالمی رہنماؤں نے امریکہ میں نسل پرستی و قوم پرستی پر مبنی پالیسیوں کو دنیا کیلئے بڑ ا چیلنج قرار دیا ہے۔ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں اب تک بہت سے اجتماعی معاہدوں سے امریکا کو الگ کرلیا ہے اور ایران کے ساتھ ہونے والے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے بھی غیر قانونی طورپر علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ٹرمپ کا مؤقف تھاکہ موجودہ عالمی نظام کثیرالفریقی سیاست پر استوار ہے جو دنیا میں امریکہ کی برتری کی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عالمگیریت کے نظریئے کو مسترد کرتے ہیں اور وطن پرستانہ نظریات کے حامی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے عالمی برادری اور امریکا کے درمیان فاصلوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔ ٹرمپ کی اس پالیسی پر نہ صرف امریکہ کے یورپی اتحادی ناراض چلے آ رہے ہیںبلکہ بہت سے امریکی سیاست دان اور بین الاقوامی ادارے بھی ٹرمپ پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میری حکومت کی پالیسی امریکہ کی برتری کو یقینی بنانے اور مفادات کے تحفظ پر استوار ہے لیکن واشنگٹن کے اتحادیوں کی جانب سے ساتھ نہ دینے اور مسلسل مخالفت کی وجہ سے ٹرمپ کی ’’فرسٹ امریکہ‘‘ کی پالیسی نے عالمی سطح پر امریکہ کو تنہا کردیا ہے۔ امریکہ کو اب ایسی پالیسی اپنانا ہوگی جس سے رنگ، نسل اور مذہبی امتیاز کے عفریت پر قابو پایا جاسکے۔انتقال اقتدار کے موقع پر پیش آنیوالے حالات سے جوبائیڈن کو بھی سبق سیکھنا چاہیے خاص طورپر جوبائیڈن کو انسانی حقوق کے حوالے سے ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہیے جو منصفانہ ہو اور پس ماندہ ممالک کیلئے حوصلہ افزا ہو۔ اس میں شک نہیں کہ ٹرمپ نے اس حوالے سے ایسے بہت سے اقدامات اٹھائے جو دنیا میں اکثریت کو قبول نہیں تھے ۔موجودہ حالات میں اقوام عالم کی طرح پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے کہ امریکہ میں انتقال اقتدار پُر امن ہو تاکہ امریکی وقار قائم رہے اور جمہوری اقدار برقرار رہ سکیں مگر اس کیلئے امریکہ سے نسلی امتیاز کا خاتمہ ضروری ہے ۔

مزیدخبریں