ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا میں امریکہ کی اس ساکھ کو خاک میں ملا دیا ہے جو امریکی قوم نے گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں بنائی تھی۔ پچھلی صدی میں امریکہ جمہوری دنیا کا لیڈر بنا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے جمہوری ادارے اور روایات بہت مستحکم ہو گئے تھے۔ امریکی جمہوری ماڈل کو دنیا کے کئی ممالک اپنے لئے آئیڈیل سمجھتے رہے ہیں۔ وہاں کم و بیش ڈیڑھ سو سال میں ہونیوالے صدارتی انتخابات، کانگرس کے ارکان کے چنائو، ریاستی اداروں کے ارکان کے انتخابات میں شاید ہی کبھی کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی ہو۔ ان انتخابات میں کبھی دھاندلی کا الزام بھی نہیں لگا کیونکہ وہاں کے ووٹر اور ارکان دھاندلی کے راستے میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 میں ہونیوالے صدارتی انتخاب کو پہلے دن ہی متنازعہ بنا دیا تھا۔ اپنے ٹویٹ پیغامات میں موصوف نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ان انتخابات میں پوسٹل بیلٹس کے ذریعے فراڈ کا منصوبہ بنایا گیا۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو یہ پیغام دینا شروع کر دیا کہ وہ صدارتی انتخاب میں ہونیوالے ’’فراڈ‘‘ کو روکیں۔ ٹرمپ مسلسل صدارتی انتخاب کے دوران ٹویٹ کرتے رہے کہ وہ انتخابی نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کرینگے۔ انھوں نے اپنے حامیوں کو یہ باور کرایا کہ ان کے ووٹ چوری ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ کی امریکہ میں سفید فام ووٹروں میں حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ان کی پرجوش حامی ہے۔ ٹرمپ اس طبقے کو مسلسل ذہنی طور پر تیار کرتے رہے کہ فراڈ صدارتی انتخاب کے نتائج کو تسلیم نہیں کرنا۔ جب صدر ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کیا تو وہ دھاندلی یا فراڈ کے کوئی ٹھوس ثبوت نہ دے سکے جس پر عدالتوں نے ان کے موقف کو مسترد کر دیا۔ وہ یہ اعلان بھی کرتے رہے کہ میں وائٹ ہائوس خالی نہیں کروں گا۔ اس طرح یہ خدشہ پیدا ہوا کہ امریکہ جہاں ایک صدی سے زیادہ عرصے تک وائٹ ہائوس میں اقتدار بلا رکاوٹ جمہوری انداز میں منتقل ہوتا رہا، وہاں اس مرتبہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہو گی۔ ٹرمپ کے ہائوس خالی نہ کرنے کی صورت میں حالات سے نمٹنے کیلئے متعلقہ افراد اور ادارے اس کا آئینی اور قانونی حل بھی تلاش کرتے رہے۔ امریکی تاریخ میں یہ انہونا واقعہ تھا کہ جب کانگرس کے سیشن میں نومبر کے صدارتی انتخاب کے نتائج کی کانگرس کی طرف سے تصدیق ہونا تھی تو ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو واشنگٹن پہنچنے کیلئے کہا۔ ٹرمپ کے ان سپورٹرز نے کانگرس کی عمارت پر دھاوا بول دیا، یہ جوشیلے حامی نعرے لگاتے ہوئے کانگرس کی عمارت میں گھس گئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ ارکان کانگرس خوفزدہ ہو کر اپنی جان بچانے لگے۔ دنیا بھر میں اس غنڈہ گردی کے مناظر کو ٹی وی سکرینوں پر دیکھا۔ کوئی بھی یہ یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ یہ سب کچھ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں کیپیٹل ہِل میں ہو رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے بغاوت ’’Coup ‘‘ کرانے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ ٹرمپ اپنے نائب صدر مائیک پینس پر انحصار کر رہے تھے کہ وہ جو بائیڈن کے ووٹوں اور ان کی جیت کی تصدیق کو روکیں گے لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ پینس نے اپنے باس کیلئے غیر آئینی کام کرنے سے انکار کر دیا۔ سپیکر نینسی پلوسی ، پینس اور ارکان کانگرس نے جو بائیڈن کے امریکہ کے نئے صدر ہونے کی تصدیق کر دی۔ صدر ٹرمپ نے جو بحران پیدا کیا اس سے دنیا میں امریکہ کے امیج کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ امریکی جمہوری نظام کو دنیا بھر میں ایک مستحکم اور قابل تقلید جمہوری نظام سمجھا جاتا رہا۔ امریکہ دنیا بھر میں ڈکٹیٹروں اور اقتدار پر غیر قانونی انداز میں قابض حکمرانوں کے تختے الٹ کر وہاں جمہوری نظام کو سپورٹ کرتا رہا۔ سرد جنگ کے دور میں امریکہ نے کئی سوشلسٹ اور کیمونسٹ ملکوں کے سربراہوں کو اس بنیاد پر اقتدار سے نکال باہر کیا کہ وہ لوگوں کو ان کے جمہوری اور شہری حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ جمہوری، انسانی حقوق، شہری آزادیوں، آزادی اظہار رائے کا ایک چیمئن بن گیا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی آزادیوں کیلئے وہ عالمی تحریک کا لیڈر بنا، اسی بنیاد پر اس نے اپنی حریف کیمونسٹ سپر طاقت سوویت یونین کے پچھلی صدی میں حصے بخرے کرنے اور اسے سپر طاقت کے سٹیٹس سے محروم کرنے کیلئے پورا زور لگایا۔ چھ جنوری کو واشنگٹن میں جو ہوا، اس سے دنیا بھر کے جمہوری پسند لوگوں کو سخت کوفت ہوئی۔ پاکستان میں بھی جن لوگوں نے یہ مناظر دیکھے، انھیں بھی حیرت ہوئی کہ وہ ملک جو گذشتہ سات دہائیوں سے پاکستان میں جمہوری عمل کی حمایت کرتا رہا ہے اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کا درس دیتا رہا ہے، خود اس کے ہاں جمہوری اصولوں اور اقدار کو اس طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ 6 جنوری کے واقعہ نے خود امریکہ کے دانشوروں، قانون دانوں، سیاست دانوں اور سوچنے والوں کو یقیناً یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ایک شخص کس طرح پورے جمہوری نظام کو اتھل پتھل کر سکتا ہے۔