کرونا وبا: 2020 ایک جائزہ

Jan 10, 2021

ڈاکٹر یاسمین راشد

سال نو کی شروعات کے ساتھ کرونا وبا کے باقاعدہ عالمی اعلان کوبھی ایک سال مکمل ہو گیا ۔ ایک سال سے کچھ زائد عرصے میں کرونا وائرس آٹھ کروڑ اٹھاسی لاکھ سے زائد لوگو ں کو متاثر اور انیس لاکھ سے زائد انسانوں کی جان لے چکا۔ عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ ابھی تک اس کا درست تخمینہ بھی نہیں لگایا جا سکا۔ اگرچہ دنیا کے بڑے تجارتی مراکز کی اکثریت اس وقت لاک ڈاونز، پابندیوں اور کرفیوز کی وجہ سے بند ہے تاہم امید کی جارہی ہے کہ نئی ویکسینزاور بہتر علاج سے وبا پر مکمل قابو کی منزل اب کچھ زیادہ دور نہیں۔ 
پاکستان اس ایک سال میں کامیابی سے وبا پر قابو پانے کے حوالے سے عالمی سطح پر موضوع بحث رہا۔ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے کیسز کی شرح خاصی کم رہی۔ اگرچہ اکتوبر کے آغاز سے کرونا کی دوسری لہرکے دوران کیسز میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیاتاہم دسمبر کے آخر ی دو ہفتوں میںہم بڑھتے ہوئے کیسز کو روکنے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ پہلی لہر کے دوران عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادہان گیبریسئس نے برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ میں اپنے ایک کالم میں لکھا کہ پاکستان نے کرونا وبا پر کچھ اس طرح قابو پایا ہے کہ ساتھ ہی ساتھ معیشت بھی استحکام کی جانب گامزن ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ وبا پر قابو پانے اور معیشت بچانے میں کسی ایک کا ہی انتخاب ہو سکتا ہے۔ درحقیقت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف اور بین الاقوامی پالیسی سنٹر برائے شمولیاتی ترقی نے کرونا وبا کے دوران مختلف ملکوں میںسماجی تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی فہرست میں پاکستان کو بہترین رینکینگ والے ملکوں میں شمار کیا۔ اس مشترکہ مطالعے میں ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کے ممالک میں سماجی تحفظ کے حوالے سے اٹھائے جانے اقدامات کا تقابلاتی جائزہ لیاگیا۔ 
امریکہ کے سابقہ سیکریٹری خزانہ اور مشہور ماہر معاشیات لارنس لیری سمرز نے بھی لکھا کہ اگر ان کے ملک نے وبا پر اس طرح قابو پایا ہوتا جیسے پاکستان نے کیا تو اس سے ان کے ملک کی کئی ٹریلینز ڈالرز کی بچت ہو سکتی تھی۔ بھارتی ادیب سیاستدان اور سابق وزیر ششی تھرور نے بھی کہا کہ ہم بارڈر کے اس پار رشک سے دیکھتے ہیںکیونکہ معمولات زندگی کی طرف لوٹنے کے سفر میں ان کی کارکردگی بہت اچھی جا رہی ہے۔ 
 بلحاظ آبادی پاکستان کاسب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی ماہرین اور محققین کی خصوصی توجہ کا موضوع رہا۔ پنجاب پورے ملک کی آبادی کا 53 فی صد ہے لیکن مجموعی ملکی کرونا کیسز میں سے صرف اٹھائیس فی صد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سال کے اختتام تک پاکستان میں فی ملین آبادی میں اموات کی شرح پینتالیس تھی جبکہ پنجاب میں یہ شرح پنتیس تک رہی۔ اسی طرح پاکستان میں کیسز کی شرح 2151 فی ملین آبادی رہی جبکہ پنجاب میں یہ شرح 1245 ریکارڈ کی گئی۔ یاد رہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں یہ شرح 7404  تک تھی۔ 
قبل اس کے کہ حکمت عملی کاتفصیلی تجزیہ کیا جائے یہ ذکر کرنا اہم ہو گا کہ امپیریل کا لج لندن کے شماریاتی تجزئے میں جون  2020تک ہمارے ہاں کوئی دو کروڑ بیس لاکھ کیسز کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اگرچہ میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی زمانی امکانات کی بنیاد پربنائے گئے تخمینہ جاتی شماریاتی ماڈلز میں ابھی بہت بہتری کی گنجائش ہے لیکن اس کے باوجود ایک خوفناک تصویر سامنے آرہی تھی ۔ اس تخمینہ سے آدھے کیسز بھی نا قابل بیان حالات پیدا کر سکتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے وبا نے وہ شکل اختیار نہیں کی۔ 
اکتوبر کے آغاز میں کرونا وبا کی دوسری لہر کے دوران اضافہ پھر سے شروع ہوا۔ تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا ۔جو تعداد ستمبر کے دوسرے ہفتے تک چند درجن تک محدود ہو گئی تھی اب سینکڑوں تک جا پہنچی۔ پہلی لہر کے آخری دنوں میں ہسپتالوں کے جو وارڈز خالی ہو گئے تھے وہ اب دوبارہ بھرنا شروع ہو گئے ۔ کرونا کے لیے مختص تمام وارڈز کودوبارہ مزید بہتر کرنے کے علاوہ بہت زیادہ کیسز کی صورت میں متبادل انتظامات والے ہسپتالوں کو بھی فوری طور تیار کیا گیا۔ پی کے ایل آئی ، میو ہسپتال، راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اور نشترہسپتال ملتان میں کرونا کے لیے خصوصی انتظامات موجود ہیں۔ بڑھتے ہوئے نئے کیسز کو روکنے کے لیے اعدادوشمار کے تفصیلی جائزے کے بعد تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور عوامی اجتماعات پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی نوعیت کے دیگر اقدامات کے نتیجہ میں دسمبر کے دوسرے ہفتہ سے ہم اس اضافہ کو روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ روزانہ کے کیسز میں مزید اضافہ تھم گیا ہے اور ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کیسز میں واضح کمی لائی جا سکے۔ پہلی لہر میں دنیا نے یہ سبق بھی سیکھا ہے کہ فیصلوں کا وقت پر ہونا بہت اہم ہوتا ہے۔ اب جب ساری دنیا وائرس کی نئی جنیاتی قسموں سے نبردآزما ہو رہی ہے اور نئی سے نئی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے ایسے میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کامیاب حکمت عملی والے ممالک سے سیکھنے کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔یہ ذکر اہم ہے کہ گزشتہ برس عیدین کے دوران بازاروں میں عوامی لا پرواہی اور بعد ازاں محرم کے اجتماعات کاسلسلہ جاری رہا تاہم قابل غور نکتہ یہ ہے کہ عیدا لفطر کے دوہفتوں بعد کیسز کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا جبکہ عیدا الاضحی او رمحرم کے بعد کیسز میں بڑا اور واضح اضافہ دیکھنے میں نہیں ملا۔ 
کرونا وبا کاا ٓغاز دسمبر 2019میں چین کے وہان صوبہ میں پھیلنے والے پر اسرار نمونیا سے ہوا۔ وائرس کہاں سے آیا اس بارے میں ابھی تحقیق جاری ہے۔ لیکن اس بیماری سے ہونے والے اموات نے تمام دنیا میں خوف کی کیفیت پیدا کر دی تھی ۔جوں ہی عالمی ادارہ صحت نے تین جنوری کو اس بیماری کا باقاعدہ اعلان کیا ہم نے فوری طور تیاریوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ملک کی اعلی ترین سیاسی قیادت کی طرف سے فوری طور پر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ۔ وزیر اعلی کے احکامات پر قائم ہونے والی خصوصی کمیٹی کی پہلی میٹنگ دس جنوری کو ہوئی۔ اس کمیٹی میں دوصوبائی وزیر، دو سیکریٹر یزکے علاوہ وزیر اعلی کا خصوصی نمائندہ بھی شامل تھا۔ جنگی بنیادوں پر تیاریاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت ریسکیو 1122، سول ایوی ایشن اورسپیشل پروٹیکشن یونٹ سے ملکر فوری طور ایک حکمت عملی وضع کی گئی ۔ہنگامی بنیادوں پر سکریننگ ، قرنطینہ اور علاج کے بارے میں ابتدائی اقدامات اور طریقہ کار وضع کیا گیا۔  (جاری) 

مزیدخبریں