ملک کی سکیورٹی کے معاملہ پر کوئی سیاست ہونی چاہیے نہ کسی کی انا آڑے آنی چاہیے

حکومت سے مذاکرات کامیاب۔ ہزارہ برادری کے دھرنوں کا اختتام‘        میتوں کی تدفین اور وزیراعظم کا کوئٹہ کا دورہ
حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اور معاہدہ طے پانے کے بعد ہزارہ برادری نے سانحۂ مچھ کیخلاف ملک بھر اور کوئٹہ میں جاری مظاہرے اور دھرنے ختم کر دیئے اور اپنے پیاروں کی میتوں کی تدفین کردی جس کے بعد وزیراعظم عمران خان بھی ہفتہ کی دوپہر کوئٹہ پہنچ گئے اور گورنر ہائوس کوئٹہ میں امن و امان پر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ اس موقع پر گورنر بلوچستان امان اللہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے وزیراعظم سے خصوصی ملاقاتیں کیں اور انہیں سانحۂ مچھ کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کمانڈر سدرن جنرل سرفراز علی بھی شریک ہوئے۔ وزیراعظم کے دورۂ کوئٹہ کے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بھی انکے ہمراہ آئے جبکہ وفاقی وزراء اور مشیران علی زیدی‘ علی امین گنڈاپور‘ زلفی بخاری اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پہلے ہی کوئٹہ میں موجود تھے جنہوں نے گزشتہ شب سانحۂ مچھ کے متاثرین سے کامیاب مذاکرات کئے اور انہیں میتوں کی تدفین پر آمادہ کیا۔ 
وزیراعظم عمران خان نے جمعۃ المبارک کے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہزارہ برادری آج میتیں دفنا دے‘ میں گارنٹی دیتا ہوں کہ آج ہی کوئٹہ پہنچوں گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ملک میں فرقہ واریت پھیلانا چاہتا ہے‘ کراچی میں علماء کا قتل بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کے چار بڑے واقعات رونما ہونے سے بچائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہزارہ برادری کے تمام مطالبات بھی مان چکے ہیں مگر ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم آئیں تو لاشیں دفنائیں گے‘ دنیا میں کہیں اس طرح وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جاتا۔ 
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ ہزارہ برادری کو بعض مخصوص مقاصد اور مفادات کے تحت گزشتہ 20 سال سے نشانہ بنا کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے جبکہ اس عرصہ میں برسراقتدار کوئی بھی جماعت اور کوئی بھی حکومت دہشت گردوں کی مکمل سرکوبی میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس عرصہ کے دوران ہزارہ برادری پر دہشت گردی کے 80 واقعات ہوئے جن میں مجموعی 16 سو سے زائد افراد شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے ہیں۔ کوئٹہ دہشت گردی کی ایک واردات میں ہزارہ برادری کے ایک تعزیتی احتجاجی اجتماع پر پٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی جس کے نتیجہ میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد جھلس کر جاں بحق اور بیسیوں شدید زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح ایران سے واپس آنیوالی زائرین کی بسوں کو قومی شاہرات پر روک کر ان میں موجود ہزارہ برادری کے لوگوں کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایسا ہی افسوسناک واقعہ مچھ بلوچستان میں ہوا جہاں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کن مزدوروں کو رات گئے انکی رہائش گاہ سے اغواء کرکے ایک دوسرے مکان میں لے جایا گیا اور انکے ہاتھ پائوں اور آنکھیں پٹی سے باندھ کر تیز دھار آلے سے انہیں بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ اس سانحہ کے بعدمقتولین کے ورثاء نے لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جو مظاہروں اور دھرنوں کی شکل میں ملک بھر میں پھیل گیا۔ متاثرین سانحہ مچھ کی جانب سے یہ تقاضا کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان خود انکے پاس آکر انکی ڈھارس بندھائیں گے تو وہ میتوں کی تدفین کرینگے۔ اس سلسلہ میں مقامی انتظامیہ کی جانب سے انکے ساتھ مذاکرات بے سود ثابت ہوئے اور وہ وزیراعظم کی آمد کیلئے مصر رہے۔ 
گزشتہ ایک ہفتے سے لاشوں کی تدفین نہ ہونے کے باعث ملک بھر میں تشویش اور کشیدگی کی فضا پیدا ہو رہی تھی جس سے ملک کی سلامتی کے درپے عناصر کو ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کی راہ ہموار کرنے کا نادر موقع ملتا نظر آرہا تھا جبکہ بادی النظر میں اس ٹارگٹ کلنگ کا مقصد بھی فرقہ ورانہ کشیدگی پھیلا کر ملک کی سلامتی اور حکومتی رٹ کمزور کرنے کا تھا۔ افغانستان میں موجود دہشتگرد تنظیم داعش کی جانب سے اس ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری قبول کی گئی تو اس سے صورتحال اور بھی پیچیدہ ہو گئی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونیوالے سات مزدوروں کی افغانستان کی شہریت کے ثبوت بھی مل گئے۔ اس سے یہ عندیہ بھی ملا کہ یہ مزدور داعش کے ساتھ اعتماد ٹوٹنے کے باعث اسکے غضب کا نشانہ بنے ہیں جو ممکنہ طور پر پاکستان میں داعش کے نیٹ ورک کا حصہ تھے جبکہ اس نیٹ ورک کو بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ ان خدشات کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے بھارتی دہشت گردی کے نیٹ ورک کے بعض عالمی اداروں کو ٹھوس ثبوت ملے جس سے اس امر کی تصدیق ہوئی کہ اس نیٹ ورک میں دہشت گرد تنظیم داعش کو استعمال کیا جارہا ہے جس کے طالبان کے علاوہ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ساتھ بھی روابط ہیں۔ اس نیٹ ورک کے پاکستان کی ایجنسیوں نے بھی ٹھوس ثبوت اور شواہد اکٹھے کئے اور اسکے پاکستان میں دہشت گردانہ منصوبوں کی بھی نشاندہی کی جس کی بنیاد پر وزیراعظم عمران خان نے عالمی اداروں اور قیادتوں کو باور کرایا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کررہا ہے جس کے ہاتھ روکنا ضروری ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارتی دہشت گردی کے ان ثبوتوں پر مبنی ایک جامع ڈوژیئر بھی تیار کرکے عالمی قیادتوں کے حوالے کیا گیا جبکہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں بھی بھارتی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت مل چکے ہیں اس لئے ممکنہ طور پر مچھ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ بھی اسی بھارتی نیٹ ورک کی کارروائی ہے جس کا نشانہ بننے والے ہزارہ کمیونٹی کے مزدوروں کے حوالے سے حتمی نتیجہ تو متعلقہ ایجنسیوں کی رپورٹوں سے ہی سامنے آسکے گا تاہم ان کا بہیمانہ قتل انسانیت کا قتل تو بہرصورت ہے جس پر متاثرین کے ساتھ ہمدردی ہی نہیں‘ انکے بیش قیمت نقصانات کے ازالے کی بھی ضرورت ہے۔ سانحۂ مچھ کے متاثرین اس مقصد کیلئے ہی دھرنا دیئے بیٹھے تھے اور وزیراعظم کے جائے وقوعہ پر خود آنے کے اس لئے متقاضی تھے کہ ہزارہ کمیونٹی کیخلاف گزشتہ 20 سال سے جاری دہشت گردی پر اب تک انکی مؤثر دادرسی ہو ہی نہیں سکی۔ 
بے شک وزیراعظم نے بھارتی شرانگیزیوں کے باعث پیدا ہونیوالے سکیورٹی تھریٹس کے پیش نظر میتوں کی موجودگی میں بلوچستان جانے سے گریز کیا اور اب مکمل دادرسی کی حکومتی یقینی دہانی کے بعد متاثرین نے اپنے پیاروں کی میتیں دفنادی ہیں تو وزیراعظم نے بھی فوری طور پر کوئٹہ جانے کا وعدہ پورا کرکے وہاں بیٹھ کر جہاں متاثرین کی ڈھارس بندھائی ہے وہیں بلوچستان حکومت اور متعلقہ انتظامیہ سے امن وامان کی صورتحال پر مکمل قابو پانے اور آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے دینے کی یقین دہانی بھی حاصل کی ہے۔ یہ صورتحال حکومتی گورننس کیلئے بہرحال ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جس کے ساتھ قومی اتفاق رائے اور مکمل یکجہتی سے ہی عہدہ برأ ہوا جا سکتا ہے جو آج حکومت اور اپوزیشن کے مابین قومی ڈائیلاگ کا متقاضی ہے۔ ملک کی سکیورٹی کے معاملہ پر کسی قسم کی سیاست ہونی چاہیے نہ کسی کی انا آڑے آنی چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن