یہ 22 ستمبر2021ء کی بات سے جب طورخم بارڈر پر پاکستان کی طرف سے روانہ کیے گئے ٹرکوں سے جن پر ادویات سمیت دیگر امدادی سامان لدا ہوا تھا یہ ٹرک جیسے ہی افغان حدود میں داخل ہوئے تو وہاں تعینات افغان طالبان کے ایک مسلح گروہ نے ٹرکوںکو لوٹ کر ان پر لگے سبز ہلالی پرچم اُتارکر پھینکنا شروع کردئیے۔اس پوری کارروائی کی خصوصی طور پرموبائل کیمروں کے ذریعے عکس بندی کے بعد ویڈیوزکو سوشل میڈیا پر وائرل کردیا گیا۔پاکستان میںسوشل میڈیا سے پہلے یہ ویڈیوز بھارتی ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والی خبروں کے ذریعے پہنچ چکی تھیں۔15اگست 2021ء کو افغان طالبان نے جس انداز سے کابل پر بغیرگولی چلائے قبضہ کیا اور امریکی فوج افراتفری کی حالت میں اس انداز سے کابل چھوڑنے پرمجبور ہوئی جس نے خود کو زمین پر واحد سپر پاورکا دعویٰ کرنے والے امریکہ کو دنیا بھر میں شرمندگی سے دو چار کیا ‘اس سے پہلے قندھار و دیگر افغان صوبوں پر افغان طالبان کے قبضہ کو بھارتی میڈیا پاک فوج کی عملی مدد سے جوڑ رہا تھا ۔ من گھڑت خبروں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ یہ پاکستان اور پاک فوج ہی ہے جو گزشتہ 2 عشروں میں مسلسل افغان طالبان کو ان کی امریکی و نیٹو افواج کے خلاف مزاحمتی جنگ میں مدد فراہم کرتی رہی اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد وہاں موجود ساڑھے تین لاکھ افغان نیشنل آرمی کے ہوتے ہوئے جو جدید ترین امریکی اسلحہ سے لیس تھی پر افغان طالبان کے قابو پانے میں پاک فوج کے کردار کو پھیلایا جانے لگا ۔ امریکی و نیٹو افواج سے کہیں زیادہ بھارٍت کابل پر افغان طالبان کے قبضہ سے متاثر ہوا جس نے افغانستان میں تین ارب ڈالر کی ظاہر شدہ سرمایہ کاری کر رکھی تھی ۔خفیہ طور پر بھی بھارت وہاں افغان خفیہ اداروں و افغان فوج کے کمانڈروں کے علاوہ اشرف غنی کی حکومت میں شامل بعض اہم افغان شخصیات کو بھارتی مفادات کے تحفظ کیلئے بھاری رقوم فرام کرتا رہا تھا جو کہ سب ملیامیٹ ہوگیا۔
بھارت 2002ء کے بعد سے افغانستان کے داخلی معاملات میں اس حد تک جگہ بناچکا تھا جس کے ذریعے اسے براستہ افغانستان پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردوں کا طوفان برپا کرنے کا موقع ملا ۔ حاصل شدہ اس سہولت کو بھارت نے اپنی دفاعی و خارجہ پالیسی کا اس انداز سے حصہ بنایا کہ جیسے افغانستان میں اس کا عمل دخل دائمی ہو اور وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف ہمیشہ کیلئے دوسرے بارڈر کے طور پر استعمال کرتا رہے گا ۔ بدقسمتی سے بھارت کو پاکستان کے اندر سے ان عناصر کی بھر پور مدد حاصل رہی جو پاک فوج کے خلاف اپنے نظریات کی وجہ سے اختلافات رکھتے تھے اور آزادی اظہار کے نام پر دہشتگردی کی صورت حال کے ذمہ دار پاک فوج کو قرار دینے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے ۔ ملک و قوم کے تحفظ کیلئے ایک طرف پاک فوج اپنے افسران و جوان قربان کر رہی تھی تو دوسری طرف اسے ملک کے اندر سے بلاوجہ کی تنقید کا سامنا تھا ۔ تاہم فوج یہ سب کچھ صبر و تحمل سے برداشت کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانی عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنے فرائض کی ادائیگی میںمصروف رہی۔ بھارت کے علاوہ پاکستان کی تمام دشمنوں کیلئے یہ سوچنا بھی محال تھا کہ پاک فوج بھارتی، امریکی اور اس کے اتحادیوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کو شکست دینے میں اس طرح کامیاب ہوگی کہ انہیں پناہ کیلئے واپس افغانستان فرار ہونا پڑے گاجبکہ بھارت و امریکہ اور افغان حکومت ایسا نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ پاکستان کے احتجاج کی تصدیق ہوتی کہ پاکستان میں دہشت گردی کو افغانستان سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔
یہی دکھ تھا جس کا مداوا 22 ستمبر کو طورخم بارڈر پر امدادی ٹرکوں سے پاکستان کا پرچم اُتارنے کی خبر کو بھارت کے میڈیا نے اس انداز سے پیش کیا کہ جیسے افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان ٹھن گئی ہو اور افغان طالبان نے پاکستان کی بطور دشمن ملک نشاندہی کردی ہو۔ بھارت کا پروپیگنڈہ جاری تھا کہ کابل سے افغان طالبان کا وضاحتی بیان آگیا جس میں انہوںنے پاکستانی پرچم کی بے حرمتی پر معذرت کرنے کے علاوہ بتایا کہ ان افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے امدادی ٹرکوں سے پاکستان کا پرچم اتارنے کے مرتکب ہوئے اور اب ایک بار پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کا چرچا ہے ۔ جس میں چند افغانیوں کی طرف سے پاک افغان سرحد کے کسی ایسے مقام سے جہاں ابھی صرف خاردار باڑ کی تنصیب کیلئے صرف پول ہی نصب کیے گئے تھے ۔ جنہیں ایک ٹرک کے ذریعے زمین پر گرا دیا گیا جہاں یہ کارروائی کی گئی اس جگہ پر گھپ اندھیرا ہونے کی وجہ سے نہ تو علاقے کی شناخت ہوسکی ہے۔ نہ ہی 20، 25فٹ سے پرے کچھ دکھائی دیتا ہے ۔ دو تین افراد پشتو زبان میں ڈیورنڈلائن کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ٹرک کے ذریعے پول گرائے جانے کی کارروائی کوکابل فتح کرنے کے مترادف کارنامہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے پائے گئے۔ یہ چند افراد کو ن تھے ابھی تک کو ئی اطلاع سامنے نہیں آئی لیکن بھارتی میڈیا پر مذکورہ ویڈیو کو لے کر جاری تبصرے حیران کن ہی نہیں دلچسپ بھی ہیں۔ ایک ٹی وی پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر پاک افغان ڈیورنڈ لائن تنازع کی سنگینی کو سمجھنا چاہئے جس میں افغانیوں نے آج تک پاک افغان بارڈر کو تسلیم نہیں کیا‘ وہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کو افغانستان کا حصہ قرار دیتے ہیں اور پاکستان کے پختون بھی خود کو پاکستانی نہیں بلکہ افغانی سمجھتے ہیں ‘دوسرے ٹی وی چینل پر جلد ہی پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ چھڑنے کے امکانات کو روشن قرار دیتے ہوئے دنیا کو اس جنگ کیلئے تیار رہنے کیلئے کہا جارہا ہے ۔ بھارتی پروپیگنڈہ اسی مؤقف پر مبنی ہے جو پاکستان میں طویل عرصہ تک صوبہ بلوچستان میں پورے خاندان سمیت اقتدارکے مزے لوٹنے والے محمود خان اچکزئی کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ کا منظور پشتین اور اس کے دیگر ساتھی کھلے عام جلسوں میں دہراتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بھی متعدد بار خاردار باڑ کی تنصیب پر اپنے غصے کا اظہار کر چکا ہے۔
چلیے ان سب کی سمجھ تو آتی ہے لیکن حیرانگی پاکستان کے ان چند ٹیلی ویژن چینلز پر ہوتی ہے جن کے ایڈیٹر صاحبان بخوبی واقف ہیں کہ ابتدا میں بھارت کے دبائو اور پاکستان میں خود کو سرحدی گاندھی کہلوانے والے باچا خان (سردار عبدالغفار خان) کی قیا م پاکستان کی مخالفت کی وجہ سے افغانستان کی طرف سے ابتدا میں پاکستان کو بطور آزاد ریاست تسلیم نہ کیے جانے کے چند ماہ بعد 1948ء میں جب افغانستان نے پاکستان کو تسلیم کیا اور سردار شاہ ولی خان کو بطور سفیر پاکستان میں نامزد کیا گیا تو یہ اس بات کا اقرار تھا کہ اقوام متحدہ میں شامل تمام ممالک کی طرح افغانستان بھی پاکستان کو تعین کردہ سرحدی حدود کے مطابق تسلیم کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ڈیورنڈ لائن کاتنازعہ پاکستان میں ان کمیونٹ نواز سرخوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو کبھی ’گریٹر پختونستان‘‘ تو کبھی ’’گریٹر بلوچستان ‘‘کا نعرہ لگا کر فکری طور پر پاکستان کے عوام کو گمراہ اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارتی مقاصدکی آبیاری کرتے ہیں۔ان حقائق کے ادراک کے باوجود مذکورہ چند ٹی وی ٹاک شوز پر تبصروں کیلئے ان شخصیات کو مدعوکیاگیا جو پاک فوج کے خلاف کتابیں لکھ کر امریکی و بھارتی دوست نوازی کا ثبوت دیتے رہے یامذہب سے بیزاری ان کی افغان طالبان سے مخاصمت کا سبب بنتی رہی اپنے تبصروں میں ان کے جذبات دیدنی تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان کیلئے 2002ء کے بعد والا افغانستان لوٹ آیا ہو جب کابل پر امریکہ کے کٹھ پتلی اور بھارتی مفادات کے محافظوں حامد کرزائی اور اشرف غنی جیسے افراد کی حکومت تھی۔ وہی حامد کرزائی جو پاکستان میں خود کش دھماکوں کی سرپرستی میں ملوث ہونے کے باوجود پاکستان پر افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرایا کرتا تھا ۔ وہی اشرف غنی جو پاکستان کے خلاف بھارت کی ترجمانی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا اور جب وقت آیا تو بھارتی فوج اور راء کے افسران کی طرح انہوں نے بھی افغانستان سے فرار کو عافیت جانا ۔ بہرحال ہمارے وہ بھائی بند جو خار دار باڑ کیلئے پاک افغان سرحد پر نصب کیے گئے لاکھوں
پولز میں سے چند کے گرائے جانے کو اپنی ہی فوج کے خلاف تضحیک کیلئے استعمال کررہے ہیں تو انہیں اپنی فوج پر فخر ہونا چاہئے جو آج بھی ہمارے تحفظ کیلئے قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اورپوری مغربی سرحد پرخاردار باڑ کی تنصیب کو مکمل کرنے کیلئے پُرعزم ہے جسے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخارنے امن کی باڑقرار دیا ہے۔