(اس کالم کی پہلی قسط 23 دسمبر 2021ء
کو شائع ہوئی تھی)
میں نے پوچھا، خیریت تو ہے، کیا بات ہے؟ آپ لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں۔ چینی سفیر نے کہا، ہم رات دو بجے سے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن ابھی تک حکومت کے کسی ذمہ دار آ دمی سے ہمارا رابطہ نہیں ہو سکا۔ ہم مجبور ہو کر آپ کے پاس آئے ہیں۔ پھر چینی سفیر نے بتایا کہ چینی مساج سنٹر کے عملے کو لال مسجد کے لوگوں نے پہلے مارا پیٹا اور پھر اغواء کر لیا۔ میں نے کہا، یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے، کچھ کرتے ہیں۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ چینی سفیر کو چین کے صدر کا فون آیا۔ چینی سفیر نے صدر سے بات مکمل کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ صدر صاحب پوچھ رہے ہیں کیا پیش رفت ہوئی۔ ہم نے انہیں بتایا ہے کہ ہم یہاں آپ کے پاس بیٹھے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں۔ دن نکل آیا تھا۔ میں نے غازی عبدالرشید سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ آپریٹر کے پاس چونکہ ان کا ڈائریکٹ نمبر نہیں تھا، اس لیے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ پھر میں نے حامد میر کوفون کر کے پوچھا کہ کیا ان کے پاس غازی عبدالرشید کا ڈائریکٹ رابطہ نمبر ہے۔ حامد میر نے کہا، میں ابھی ان سے آپ کی بات کرواتا ہوں۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد غازی عبدالرشید کا فون آ گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ جامعہ حفصہ کے طلبہ نے مساج سنٹر کے چینی باشندوں کو مارنے پیٹنے کے بعد اغواء کر لیا ہے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے۔ ہر مشکل اور نازک موقع پر اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اگر چین جیسے دوست ملک کے باشندوںکے ساتھ یہاں اس طرح کا سلوک ہو گا تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے؟ غازی عبدالرشید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طلبہ کو اس طرح کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی، وہ اپنے طور پر گئے ہوں گے۔ میں نے کہا، یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔ آپ جامعہ حفصہ والوں سے کہیں کہ فوری طور پر چینی باشندوں کو رہا کر دیں۔ میری اس بات پر غازی عبدالرشید نے کہا ٹھیک ہے، کل تک چینی باشندے رہا ہو جائیں گے۔ میں نے کہا،کل تک بہت دیر ہو جائے گی۔ چینی باشندوں کی رہائی کے لیے جب میں غازی عبدالرشید سے یہ گفتگو کر رہا تھا تو چینی سفیر کو دوسری بار اپنے صدر کا فون آیا۔ انہوں نے چینی باشندوں کی خیریت دریافت کی۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ صدر اس واقعے پر سخت مضطرب ہیں، وہ جلد از جلد چینی باشندوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ میں نے دوبارہ رابطے شروع کیے۔ غازی عبدالرشید سے میں نے کہا، چینی صدر کے نمائندے خود چل کر ہمارے پاس آئے ہیں۔ میری موجودگی میں دو مرتبہ چین کے صدران سے اس بارے میں پوچھ چکے ہیں۔ بہر حال، شام تک کسی نہ کسی طرح میں چینی باشندوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ غازی عبدالرشید سے بات کرنے کے بعد اپنے اسٹاف کو بھی چینی نمائندے کے ساتھ بھیجا کہ وہ ابھی چینی باشندوں کو لے کر آئیں۔ چینی سفیر کا پاکستانی ڈرائیور چینی زبان جانتا تھا، اس لیے اسے بھی ساتھ بھجوا دیا۔
ایک روز اطلا ع ملی کہ کراچی سے مرحوم عبدالستار ایدھی اور ان کی اہلیہ محترمہ بلقیس ایدھی وہاں آئے ہیں اور ایک نالے کے پاس بیٹھے ہیں۔ میں ان کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ ایدھی صاحب، آپ یہاں گندے نالے کے پاس اتنی بد بو میں کیوں بیٹھے ہیں؟ بولے، میں نہ تو کسی کے کہنے پر اور نہ کسی کے بلانے پر آیا ہوں۔ میںلال مسجد آپریشن کا سن کر کراچی سے آیا ہوں کہ کہیں میری خدمات کی ضرورت نہ پڑ جائے۔ سوچا، لوگوں کو میری ضرورت ہوگی میں وہاں پہنچ جاؤں۔ میں نے ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ ہمارے ساتھ لال مسجد سے ملحقہ گھر میں آ جائیں۔ شام کے بعد جب آپریشن کے خطرات مزید بڑھ گئے تو میں نے ان سے درخواست کی وہ یہاں سے کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں مگر وہ راضی نہیں ہورہے تھے، تاہم بعد میں میرے اصرار پر راضی ہو گئے۔ میرے دل میں ایدھی صاحب کا احترام پہلے سے بڑھ چکا تھا۔
آپریشن سے پہلے آخری رات جو مذاکرات ہوئے، ان میں غازی عبدالرشید کا کہنا تھا کہ وہ اس شرط پر باہر آئیں گے کہ انہیں گرفتار نہ کیا جائے اور محفوظ راستہ دیا جائے۔ اس وقت تک بیش تر بچے بچیاں باہر آ چکے تھے۔ ادھر حکومت کو اندیشہ تھا کہ کہیں اس طرح محفوظ طریقے سے باہر آ کر وہ کوئی اور لڑائی نہ چھیڑ دیں۔ تا ہم غازی عبدالرشید کی اس تجویز پر ہم نے کہا، ٹھیک ہے، آپ کا پیغام حکومت تک پہنچا دیتے ہیں۔ وہاں سے میں وزیراعظم ہاؤس کے لیے روانہ ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ وزیراعظم شوکت عزیز کو ساتھ لے کر صدر پرویز مشرف سے ملوں۔ وزیراعظم ہاؤس سے شوکت عزیز کو ساتھ لے کر میں ایوانِ صدر پہنچا۔ ایوانِ صدر میں اس وقت صدر مشرف کے ساتھ جنرل حامد جاوید اور باقی اسٹاف بھی موجود تھا۔ میں نے صدر مشرف سے کہا، غازی عبدالرشید کہتے ہیں کہ محفوظ راستہ دینے کی صورت میں وہ مسجد میں موجود باقی خواتین اور بچوں کو ساتھ لے کر باہر آ جائیں گے۔ میں نے کہا، حکومتیں بے گناہ شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ہائی جیکروں سے بھی مذاکرات کرتی ہیں۔ عورتوں اور بچیوں کی زندگیاں بچانے کے لیے آپ انہیں ہائی جیکر ہی سمجھ لیں۔
ایوانِ صدر سے بالکل مایوس ہو کر جب میں واپس آیا تو میں نے لال مسجد کے قریب ایک جگہ پریس کانفرنس کی اور اس معاملے میں اپنی بے بسی ظاہر کی۔ اس دوران بار بار کہا جا رہا تھا، جلدی یہاں سے نکلیں، آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ ہم لوگ وہاں سے نکل کر ابھی اگلے چوک تک ہی پہنچے تھے کہ دھماکوں کی آواز میں آنا شروع ہو گئیں۔ آپریشن شروع ہو چکا تھا۔ میں گھر واپس آ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے کانوں میں بچوں کے رونے کی آواز یں آ رہی ہیں۔ آج بھی جب میں اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو جذبات پر قابو نہیں رکھ پا تا۔ آپریشن سے کچھ دیر پہلے غازی عبدالرشید ٹی وی پر آئے اور کہا کہ میرے پاس دو بچیاںہیں، جن کو ان کی ماں تنگدستی کی وجہ سے لال مسجد میں چھوڑ گئی تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ چودھری شجاعت حسین ان دو بچیوں کو اپنی کفالت میں لے لیں۔ آپریشن کے بعد میں بڑی مشکل سے ان دو بچیوں کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔ ان کو میں اپنے گھر لے آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ آج اتنے سال بعد بھی میں ان کی پرورش کو اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ ان سے ملاقات بھی کرتا رہتا ہوں۔ ایک بارعید کے موقع پر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے بعد کچھ اور بچیاں بھی اندرموجود تھیں۔ انہوں نے جواب دیا، ہم تین بہنیں اس مدرسے میں پڑھتی تھیں۔ ہماری ایک بہن آپریشن سے پہلے باہر نکل آئی تھی اور سب سے آخر میں ہم دونوں بہنیں نکلی تھیں۔(ختم شد)