معاہدہ ٔتاشقند

Jan 10, 2022

معاہدہ تاشقند، بھارت اور پاکستان کے مابین ، آج کے روز ، یعنی 10 جنوری 1966ء کو ہونے والا وہ معاہدہ ہے جسے بظاہر تو دونوں مماک کے عوام بھول چکے ہے اور آج کی سیاست یا خارجہ پالیسی بنانے والے شاید اسکا ذکر بھی کرنا ضروری نہیں سمجھتے لیکن درحقیقت اس معاہدے نے نہ صرف بھارت اور پاکستان دونوں ممالک میں ہلچل پیدا کر دی تھی بلکہ آگے چل کر ان دونوں ممالک کے سیاست اور مستقبل بھی تبدیل کر دیا اور بر صغیر کا جغرافیہ بھی۔ ہماری تاریخ کے بہت سے دیگر معاملات کی طرح اس معاہدے کے بارے میںبھی بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ، نہ تو بھارت کے عوا م کو ملے ہیں اور نہ ہی پاکستان کو۔ 
جنگ ستمبر ہم سب کو یاد ہے۔ ہم تو سکول کے دور سے جانتے ہیں کہ یہ جنگ ہم نے جیتی تھی۔ مودی جی کی حکومت نے بھی حال ہی میں اس جنگ کو یاد کر کے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس جنگ میں فتح ان کا مقدر بنی تھی۔ فتح جس کی بھی ہوئی تھی، اس جنگ کا واحد نتیجہ ’’ معاہدہ تاشقند‘‘ تھا جو پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے مابین ہوا تھا۔ اس معاہدے میں ثالث کا کردار روس نے ادا کیا تھا ، اسی لیے اس معاہد ے پر دستخط روس (موجودہ ازبکستان) کے شہر تاشقند میں ہوئے تھے۔ ویسے تو مذاکرات میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو بھی بطور وزیر خارجہ موجود تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ روس کے وفد نے تمام بات چیت کے دوران انکو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ مختصر طور پر اس معاہدے میں، روس کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ ، صرف یہ کہا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان، فوجی، سیاسی، تجارتی اور سفارتی طور پر جنگ ستمبر سے پہلے کی پوزیشن پر چلے جائیں گے اور اپنے تعلقات بات چیت سے بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ 
معاہدہ تاشقند اتنا گول مول اور متوازن سا تھا کہ اس سے یہ تو اندازہ نہیں ہوتا کہ کس فریق کا پلڑہ بھاری رہا اور کس نے جنگ ستمبر میں فتح حاصل کی ، اور نہ ہی اس سے آنے والے وقت میں پاک بھارت تعلقات پر کوئی فرق پڑا اور نہ کسی ملک کے بیرونی تعلقات پر لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اس کی وجہ سے دونوں ممالک کی اندرونی سیاست ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی۔ اس معاہدے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ دس جنوری کی شام کو بھارت کے وزیر اعظم نے اس معاہدے پر دستخط کیے اور اسکے چند گھنٹے بعد یعنی گیارہ تاریخ کی فجر سے قبل وہ پراسرار طور پر انتقال کر گئے۔ سرکاری طور پر کہا گیا کہ انکو اچانک دل کا دورہ پڑ گیا۔ لیکن روس کی خفیہ ایجنسی کا خیال تھا کہ انہیں امریکی سی آئی اے  نے زہر دے کر قتل کیا ہے۔ اس سلسلے میں  روسی ایجنسی نے کچھ تحقیقات بھی کیں۔ جب  انکا جسد خاکی  بھارت پہنچا تو بھارت میں انکی  والدہ ، انکے بیٹوں اور انکی بیوہ  لالیتا شاستری نے دعویٰ کیا کہ انکو زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں شاستری جی کا پوسٹ مارٹم اور مکمل تحقیقات کی جائیں۔ لیکن ان کے خاندان کی جانب سے بار بار مطالبے کے باوجود انکا پوسٹ مارٹم نہ کروایا گیا۔  اس پراسرار موت کے بارے میں بھارتی حکومت نے کچھ تحقیقات ضرور کی تھیں جس کے نتائج  آج تک خفیہ رکھے گئے ہیں۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ اگر ان تحقیقات کو منظر عام پر لایا گیا تو بھارت کے کچھ ممالک کے ساتھ خارجہ تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ بھارت کے کئی صحافیوں ، اہم شخصیات اور شاستری جی کے خاندان کے بار بار مطالبے کے باوجود،  اتنے برس گزرنے کے بعد بھی یہ رپورٹ آج تک خفیہ ہی ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ کوئی عالمی سازش تھی اور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ بہر کیف وزیر اعظم شاستری کی موت کا بھارتی سیاست پر یہ اثر ہوا کہ ان کے بعد ’’ اندرا گاندھی‘‘ بھارت کی وزیر اعظم بنیں۔ وہی اندرا گاندھی جنھیں بھارت کی ’’ آئرن لیڈی‘‘ کہا گیا اور جنہوں نے بھارت کی اندرونی سیاست بھی تبدیل کر دی اور سقوط ڈھاکہ میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ دوسری جانب اس بے ضرر سے نظر آنے والے معاہدے کے پاکستان پر اثرات بھی دور رس اور کئی معاملات میں فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ جہاں بھارت کے عوام نے اس معاہدے کے خلاف آواز بلند کی وہاں پاکستان کے عوام کو بھی اس معاہدے سے شدید اختلاف تھا کیونکہ انکو تو یہ معلوم تھا کہ یہ جنگ انہوں نے جیتی ہے جبکہ  اس معاہدے میں ایسی کوئی چیز نظر  نہیں آ رہی تھی جس سے انکو فتح کا احساس ہوتا۔ ’’ آپریشن جبرالٹر‘‘ اور ’’ آپریشن گرینڈ سلام‘‘  کے آغاز کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسٹر بھٹو نے بطور وزیر خارجہ ایوب خان کو یہ یقین دلایا تھا کہ  ایک تو بھارت کسی صورت مغربی پاکستان کا  انٹرنیشنل بارڈر عبور نہیں کرے گا اور دوسرا یہ کہ اگر ضرورت پڑی تو چین دوران جنگ بھارت کے خلاف محاذ کھول دے گا۔ لیکن در حقیقت یہ دونوںباتیں غلط ثابت ہوئیں۔ اس سب کے نتیجے میں ایوب خان اور مسٹر بھٹو کی راہیں جدا ہو گئی۔ مسٹر بھٹو نے پہلے تو یہ دعویٰ کیا کہ اس معاہدے میں کچھ باتیں خفیہ رکھی گئی ہیں( بعد میں یہ بات غلط ثابت ہوئی) اور پھر اس معاہدے کو بنیاد بنا کر ایوب خان کے خلاف مہم جوئی شروع کر دی اور اپنی نئی سیاست کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ نتیجہ یہ کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ایوب خان کا اقتدار کمزور ہوتا گیا۔ شاستری کی موت کے بعد بننے والی بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور  بچے کچھے پاکستان ( موجودہ ) کا اقتدار مسٹر بھٹو کے ہاتھ آیا۔ شاستری جی کی موت، اور اس موت پر کی جانے والی پردہ داری ہمیں یہ یقین ضرور دلاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی تقدیر لکھنے اور انکی اندررنی اور خارجہ پالیسیاں تبدیل ہونے میں ’’ خفیہ ہاتھوں‘‘ کا  کردار ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔

مزیدخبریں