منی بجٹ: حقیقت اور افسانہ

Jan 10, 2022

بری خبر یہ ہے کہ فنانس (ضمنی) بل 2021 ء (منی بجٹ) میں سیلز ٹیکس سے استثنیٰ کا خاتمہ قیمتوں میں اضافہ کرے گا لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ صرف سامان تعیش تک محدود رہے گا۔ روزہ مرہ استعمال کی عام چیزیں اس اثر سے محفوظ رہیں گی اور بہت سے تبصرہ نگاروں کے دعوؤں کے برعکس کوئی مہنگائی کا طوفان نہیں آئے گا۔ سپلائی چین کے مختلف مرحلوں میں سامان یا خدمات فراہم کرنے والے ادارے تبھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اگر وہ اپنے ٹیکس گوشوارے داخل کریں۔ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء (ایس ٹی اے)کے تحت سیلز ٹیکس ایکٹ ، 1951ء کی جگہ ایک جنرل ٹیکس (جی ایس ٹی ) متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت مختلف شعبوں کے لیے ان کی اقتصادی ترجیحات اور مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے جی ایس ٹی کی مختلف شرحوں کی اجازت تھی۔ کچھ سیکٹر کو زیرو ریٹ کیا گیا تھا (مطلب کہ سامان پر کوئی آؤٹ پٹ ٹیکس نہیں ہے لیکن ان پٹ ٹیکس فراہم کنندہ کو واپس کیا جاتا تھا )، جبکہ دیگر کو کم شرح سے چارج کیا گیا تھا اور دیگر کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔(جو آؤٹ پٹ ٹیکس مستثنیٰ ہے جبکہ ان پٹ ٹیکس قابل واپسی نہیں تھا )۔اس عمل سے بے ضابطگیاں اور بگاڑ پیدا ہوا اور رقم کی واپسی کو ایک بوجھل عمل میں بدل دیا۔ دس سال گزرنے کے بعد ، موجودہ حکومت نے ، اگر چہ آئی ایم ایف کے مشورے پر لیکن ایک درست قدم اٹھایا۔چنانچہ تجویز کیا گیا کہ قومی اسمبلی کی منظوری کے بعد سیلز ٹیکس کے بگاڑ کی اصلاح کے لیے اس پر سے تمام استثنیٰ واپس لے لیے جائیں اور ہر چیز پر یکساں شرح سے سیلز ٹیکس لگایا جائے جوکہ قابل واپسی یا ایڈجسٹ ہوسکتا ہو۔روزمرہ استعمال کی جانے والی ضروری اشیائے خوردونوش جیسے کہ گندم ، گندم کا آٹا ، گندم کی چوکر ، چاول ، سبزیاں ، پھل ، دالیں ، تازہ مرغی ، مچھلی ، گوشت ، تازہ دودھ وغیر جی ایس ٹی سے مستثنیٰ رہیں گی۔ اسی طرح تعلیمی کتابیں اور سٹیشنری کی اشیائ، کمپیوٹر ا ور لیپ ٹاپ کے درآمدی پرزہ جات اور خصوصی اقتصادی زونز کے لیے درآمد شدہ پلانٹ اور مشینری، زرعی ٹریکٹر ، کھاد ، کھاد کے شعبے کے ان پٹ، کیڑے مار ادویات استعال شدہ کپڑے ، جوتے اور سنیماٹو گرافک آلات پر جی ایس ٹی کم شرح سے چارج کیا جاتا رہے گا۔ منی بجٹ کا مالیاتی اثر 343 ارب روپے ہے جس میں فارما سیوٹیکل سیکٹر سے 160ارب روپے کی چھوٹ واپس لے لی گئی ، مشینری سے 112 ارب روپے اور دیگر اشیاء سے 71ارب روپے کی چھوٹ واپس لے لی گئی۔ دواسازی اور مشینری پر جی ایس ٹی قابل واپسی یا ایڈجسٹ کروایا جاسکتا ہے ۔ منی بجٹ میں ادویات کو ’زیرو ریٹڈ‘ کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیکنگ میٹریل اور دیگر پر عائد ان پٹ ٹیکس( 35ارب روپے کی مالیت ، جو صارفین ادا کررہے ہیں )اب قابل واپسی ہوجائے گی۔ اسی طرح ، ادویات کی تیاری کے لیے درآمدی اجزاء پر جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے لیکن یہ قابل واپسی ہوگا۔ اس سیکٹر کو جی ایس ٹی نظام میں لانے سے دستاویز میں مدد ملے گی اور اس طرح 530بلین رو پے مالیت کی غیر دستاویزی سپلائی ٹیکس نیٹ میں آجائے گی۔ دیگر اشیاء کودیکھیں تو 36بلین روپے کے سیلز ٹیکس کا استثنیٰ ان چیزوں سے واپس لیا گیا جن میں لگژری اشیاء جیسے کہ درآمد شدہ برانڈڈ گوشت ، مچھلی ، پولٹری وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے استعمال کنندگان عام طورپر بالائی یا اعلیٰ متوسط آمدنی والے ہوتے ہیں لیکن درمیانی آمدنی والے بھی ان کا استعمال کرتے ہیں۔ موخر الذکر کو ، لگڑری آئمز پر قیمتوں میں اضافہ ضرور متاثر کرے گا۔ اس کے علاوہ کاروباری سامان سے مزید 31 ارب روپے کی چھوٹ واپس لے لی گئی۔ ساتھ ہی ، حکومت کے زیر استعمال کاروباری سامان (جیسے سرکاری ہسپتال میں) اور لوگوں کے زیر استعمال سامان پر سے 2.2 ارب روپے کی چھوٹ ختم کردی ہے۔ استثنیٰ واپس لینے کے علاوہ ، ایف بی آر نے سولرسروسز پر ایڈوانس ٹیکس ، آن منی ( پریمیم) کی حوصلہ شکنی کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس اور غیر ملکی ٹی وی سیریلز ، ڈاراموں اور اشتہارات پر ایڈوانس ٹیکس لگایا ہے۔ ایف بی آر نے 1000 سی سی سے زیادہ موٹر گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2.5جسے 10فیصد تک بڑھانے کی تجویز بھی دی ہے۔ تاہم  پری پیڈ فون سروسز استعمال کرنے والوں کو اپنا ایڈوانس ٹیکس ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوگا۔ منی بجٹ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں شفافیت لانے کے لیے عالمی تقاضوں کے مطابق نظام متعارف کرانا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء میں متعارف کرائے گئے رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (آر ای آئی ٹی)میں اب ذیلی کمپنیاں بنائی جاسکتی ہیں۔ منی بجٹ کے ذریعے ، ایف بی آر نے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ان افراد کی فہرست کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا اختیار طلب کیا جو پورا ٹیکس نہیں دیتے۔ سپلیمنٹری فنانس بل کے علاوہ ، حکومت نے اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء بھی متعارف کرایا ہے۔ اگرچہ، آئی ایم ایف کے مشورے پر سہی لیکن یہ درست سمت میں ایک اور قدم ہے۔ ایک آزاد بورڈا سٹیٹ بینک کا انتظام کرے گاجس کے لیے بورڈ کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز ، گورنرز ، ڈپٹی گورنرز اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی اراکین کا تقرر صدر/ حکومت پاکستان پانچ سال کی مدت کے لیے کریں گے۔ (دوسری مدت کے لیے اہل )۔عدالتی فیصلوں کی رْو سے کسی سنگین بدانتظامی وجہ سے تقرری کرنے والی اتھارٹی کے ذریعے انہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔ریفنڈ اور ایڈجسٹمنٹ کے بعد ، منی بجٹ کے ذریعے اکٹھے ہونے والے ریونیو سے 33 ارب روپے ٹارگٹڈ سبسڈیز کے لیے مختص کیے گئے ہیں ، جس میں بچوں کے فارمولہ دودھ کے لیے 10.5بلین روپے ، (کپاس ، مکی ، دیگر ) بیجوں کے لیے 7.86بلین روپے اورپولٹری ، مویشیوں اور فش فیڈ کے خام مال اور تیاری کے لیے 6.1بلین روپے شامل ہیں۔ بنولہ آئل کے لیے 5.1بلین روپے ، سرکاری ہسپتالوں کو سپلائی کرنے والے سامان کے لیے 1.3بلین روپے ، زرعی آلات کے لیے 1 ارب روپے اور درآمدی لیب ٹاپ اور کمپیوٹرز کے لیے 400ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ درحقیقت منی بجٹ کے اقدامات ہماری معیشت کو دستاویزی بنا سکتے ہیں۔ آیئے انہیں ایک موقع دیں تاکہ ہمارے براہ راست ٹیکس ( جو امیروں پر لگتے ہیں ) بڑھ سکیں اور بالواسطہ ٹیکس ( جو کہ ہر ایک کو ادا کرنے پڑتے ہیں ) کم ہوسکیں۔

مزیدخبریں