پاک افغان سرحد پر باڑ لگنے کے بعد نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اسمگلنگ میں کمی کا امکان ہے

محمدسلیمان بلوچ (ڈیرہ غازیخان) 
 بلوچستان میں اسمگلنگ کی روک تھام کے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے کے باعث قومی خزانے کو ٹیکس کی مَد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں محکمہ ایف بی آر، کسٹم اور  دیگر متعلقہ محکموں کا چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم نظر نہیں آتا۔کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں سمگل شدہ گاڑیوں کے بڑے بڑے شو روم کام کر رہے ہیں ۔اس صورتحال پرکسٹم حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران 1300 سے زائد سمگل شدہ گاڑیاں قبضہ میںلی ہیں۔اس حوالے سے کلیکٹر کسٹم بلوچستان عرفان جاوید کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں کے صارفین کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور  پشاور میں ہیں لیکن ان میں بھی اب کمی واقع ہوئی ہے۔ کمی کی وجہ یہ ہے کہ کابلی گاڑیوں کی ان تک پہنچ مشکل ہو رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ سے تین لاکھ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اب بھی کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں عام افراد، پولیس اہلکاروں اورسرکاری افسران کے زیرِ استعمال ہیں۔ عام تاثر  یہ ہے کہ یہ گاڑیا ں بااثر افراد کے ذریعے اندرون ملک سمگل ہوتی ہیں۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، اس کے لیے بہت سارے طریقے ہو سکتے ہیں، حکومت اسے ریگولر کرنے کا سوچ سکتی ہے، ٹیکس کم کر سکتی ہے۔ ایک آدمی عام مارکیٹ سے جس گاڑی کے 30 لاکھ دیتا ہے، وہی گاڑی ویش سے 5، 6 لاکھ میں مل جاتی ہے۔ اس میں افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں سارے کے سارے بڑے لوگ ملوث ہیں۔
بلوچستان میں 2013 میں ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 17800 سمگل شدہ گاڑیوں کو رجسٹرڈ کر کے قانونی شکل دی گئی جس سے ملکی خزانے کو 6 ارب روپے کا فائدہ پہنچا جبکہ ملک بھر میں 51 ہزار گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوئی اور قومی خزانے میں 18 ارب روپے جمع ہوئے۔ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ  یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئٹہ سمیت صوبے میں دہشت گردی اور  اغوا کی کئی وارداتوں میں یہی سمگل شدہ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں کی روک تھام کے لیے پولیس نے کسٹم کے ساتھ مل کر خصوصی مہم بھی چلائی ہے۔ اس سال کے پہلے 7 ماہ میں 600 گاڑیاں کسٹم کو مشترکہ طور  پر  پکڑ کر دیں، اب شو رومز  پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو پکڑیں تاکہ یہ کسی دہشت گردی میں ملوث نہ ہوں۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر  باڑ لگنے کے بعد نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اسمگلنگ میں کمی کا امکان ہے۔ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر حکومت ملک میں موجود نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ایک مرتبہ پھر ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ریگولرائز کر دے تو  نہ صرف ملکی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ گاڑیوں کا  نادرا اور پولیس کے پاس مکمل ریکارڈ بھی مرتب ہو سکتا ہے۔ڈیرہ غازیخان  میں نان کسٹم گاڑیوں کی سب سے بڑی گذرگاہ ھے زیادہ تر سمگلر تحصیل کوہ سلیمان کے علاقہ زین چیک پوسٹ بارڈر ملٹری پولیس  سے ھوتے ھوئے تھانہ صدرتونسہ شریف  ھیڈتونسہ اور صدر کوٹ ادو کے علاقہ سے ھوتے ھوئے اسلام اباد اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں روانہ ھو جاتے واضح رھے ان نان کسٹم گاڑیوں میں منشیات اور اسلحہ کی ترسیل بھی کی جاتی ھے  ڈیرہ غازیخان ڈویژن کے دو تھانے صدرتونسہ اور کوٹ ادو صدر ھیڈتونسہ بیراج چیک پوسٹ اور اسی طرح زین چیک پوسٹ بارڈر پر تعینات سکیورٹی فی گاڑی  رقوم لیکر محفوظ راستہ دیتے ہیں۔نیچے سے اوپر تک یہ سلسلہ وزارت اعلیٰ سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے افراد تک جا پہنچتا ہے۔ ایک درجن کے قریب سمگلروں کے مقامی پولیس کے ساتھ یارانے ہیں ۔موجودہ ریجنل پولیس آفیسر ڈیرہ غازیخان اچھی شہرت کے حامل ہیں اب دیکھنا یہ ھے وہ سمگلنگ کی کس طرح  روک تھام کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن