جھنگ کچھ یادیں، کچھ باتیں…( 1) جاتے، جاتے کسی اپنے کے حوالے کردوں  آنکھ میں خواب، امانت کی طرح ہوتے ہیں (توقیر تقی)

 سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے جھنگ کے دو کالمز پر تبصرہ کیا کیا کہ اب تو میں بھی خود کو جھنگ کا باسی سمجھنے لگا ہوں۔ ایک دوست نے کہا کہ ہم چنیوٹ والوں کو کبھی جھنگ سے الگ تصور نہ کرنا۔ میں نے انہیں منصور ملنگی کا گایا مصرعہ لکھ بھیجا ’’میرا شہر چنیوٹ ضلع جھنگ سجنا‘‘سید سعود ساحر، صحافت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ حکیم سہارن پوری کے بھائی تھے۔ ساٹھ سال، صحافت کے دشت میں کاٹے۔ مذہبی جماعتوں کی طرف خاص جھکائو تھا۔ بھٹو خاندان سے لڑائی رہی۔ مگر آصف زرداری سے صلح کرلی۔ ایک دن کہنے لگے۔ ’’منے‘‘ بس ایک حسرت ہے۔ کسی روز سہارن پْور  جائوں، نلکا گیڈ کر نہاوں۔ ایک صاحب نے کہا کہ ’’نلکا گیڈ نا‘‘ کیا ہوا۔  شاہ جی نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ میری جانب اشارہ کرکے کہا کہ ’’یہ ہریانے کا سپوت سمجھ گیا ہے۔ تم نہیں سمجھو گے۔ ویسے پانی پت والے تو نلکے چلانے کو ’’نلکا پیلنا‘‘ بھی کہتے تھے۔ ویسے مشاہد اللہ مرحوم بھی یہ لفظ استعمال کرتے تھے۔ مگر وہ ’’غزالوں‘‘ کے حوالے سے ’’شائستہ‘‘ جملہ جڑتے۔
ہم بھی جھنگ والے گھر میں ایک عرصہ نلکا گیڈ کر نہاتے تھے۔ بڑے بھائی نہاتے تو بالٹی بھرنے یا براہ راست نلکا چلانے کی ڈیوٹی ہماری ہوتی۔ دادی کے لگائے ہوئے، نیم کو پانی دنیا، آج خواب ہے۔ جب میرے والد کے ایک بیٹے نے ساٹھ سال کا درخت، محض پانچ ہزار میں بیچ دیا۔ تو میں کتنا رویا تھا۔ اس واردات کا پتا بھی کتنے عرصہ بعد چلا۔ اپنے شرعی حصہ سے تجاوز کیا۔ جس نیم کی چھائوں میں جوان ہوئے۔ جس کی میٹھی چھائوں سورج نہ آنے دیتی۔ جس سے جسم اور روح کا رشتہ تھا۔ میں نے آج تک اس کے ’’مجرم‘‘ کو معاف نہیں کیا۔ لوگ تو سنتے ہیں۔ ہم نے ہزاروں بار’’نیم میں چاند کو اٹکتے دیکھا تھا۔ اس پر جھولے لئے تھے۔ تیز آندھیاں جسے نہیں گرا سکیں۔ چند ہزار روپے کے لالچ نے اس کو کاٹ دیا۔ نیم نہیں کٹا، ہمارے جذبات اور احساسات کٹ گئے۔ جس نیم سے گھر کو چھوڑتے ہوئے، میں کبھی لپٹ کررویا تھا۔وہ ہماری دادی کی نشانی تھا۔ بڑے بھائی کی جھولی میں دادی نے ایک نیم کی نمولیاں ڈالیں۔ گھر کے صحن میں گوڈی کرکے نمولیاں دبائیں، پانی ڈالا اور نیم اگ آیا۔ جس نیم پر بڑے بھائی، سیڑھیاں سمجھ کر چڑھ جاتے، کئی بار سزا سے بچنے اور کئی بار مطالبات منوانے کیلئے۔ آج حسرتیں اور پچھتاوے ہیں۔ہمارا جھنگ سے عجیب تعلق  ہے۔ شیخ اسلم عرف کالا کئی بار جھنگ جاتاہے۔ تانگہ اڈا جھنگ سٹی سے اپنے گھر آٹھ وارڈ اور وہاں سے واپس تانگہ اڈا پیدل چلتا ہے۔ واپس اسلام آباد آجاتا ہے۔ کوئی حفاظتی بند کے باہر صْبح کی سیر کو مس کرتا ہے۔ رانا ندیم’’ڈھولو‘‘ کو میں نے کہا کہ تین روز ہوگئے، تم صْبح کی واک پر نہیں آرہے ہو۔ کہنے لگا صْبح جانے کا فائدہ، میں نے کہا کہ کیا مطلب، کہنے لگا کہ ’’صبح تمام آکسیجن تو ’’بلے‘‘ کی امی کھا جاتی ہے۔ (شاہد بلے کی امی، ماشا اللہ صحت مند خاتون تھیں۔وہ صبح کے سیر کے لیے بند پر روز جاتیں) دوستوں کا ہنس، ہنس کر بْرا حال ہوگیا۔سابق سیکرٹری، محمد احسن راجہ کا فون آیا۔ کہنے لگے، تم نے قدرت اللہ شہاب اور عظیم شاہکار، ’’جْھوک سیال‘‘ کے مصنف شبیر شاہ کا ذکر نہیں کیا۔ وہ سیکرٹری ریٹائر ہوتے تھے۔ کہنے لگے کہ جب میں سیکرٹری فوڈ تھا تو، استاد مجید امجد کو فون کیا۔ وہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے سابقہ ملازم تھے۔ وہ رونے لگ گئے۔ یاد رکھنے پر شکریہ ادا کیا۔ پہلے ڈی سی جھنگ نے مکمل پروٹوکول کے ساتھ، اْن کی تقریب پذیرائی اور خدمت کی۔ پھر انھیں اسی پروٹوکول میں لاہور بلوایا اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ راجہ صاحب، کہنے لگے کہ میں اے۔ سی تھا۔ مہر جیون خان ڈب کو رانجھوں کے علاقے میں لیگیا۔ وہ ہر علاقے کا پوچھتے۔ میں انھیں مکمل بریف کرتا۔ چیئرمین ضلع کونسل انور چیمہ ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مہر صاحب، ا?پ تو راجہ صاحب کا امتحان لے رہے ہیں۔ مہر جیون ڈب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چیمہ صاحب، یہ  محمداحسن بہتر شرارتی ہے۔ میں جھنگ سے ہوں، یہ مجھے تنگ کرنے کیلئے، رانجھوں کے گائوں گھما رہا ہے۔مہر جیون خاں ڈب کے بھائی، مہر نواز ڈب، ہمارے ٹیچر اور پڑوسی تھے۔ کیامیٹھے اور خوبصورت انسان تھے۔ مہر اعجاز اور سجاد ان کے بیٹوں کے ساتھ ہم کھیلے بھی ہیں وہیں سامنے گلزار شاہ، کمشنر پنڈی کا گھر ہے۔ شاید وہ اور واجد بخاری جھنگ کے ’’واحد بے فیض درخت‘‘ ہیں۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے نام لکھنے پر مجبور ہوں۔ آخر ہر شہردار، ان کی شکایت کیوں کرتا ہے۔ اس شہر نے منور عباس شاہ صاحب جیسے بھی تو سیکرٹری پیدا کئے۔ جن کیلئے صرف جھنگ ہی معتبر حوالہ تھا۔کام تو رب، رسولؐ کرتے ہیں۔ بندے نے کوشش کرنی ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ شہر والے کی عزت تو کی جاسکتی ہے۔ ایک فون اور چائے کپ بمعہ ’’بس ٹْک‘‘ تو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اپنے بزرگوار ’’عادل شیخ‘‘ صاحب سے معذرت کے ساتھ۔ ہائے، ظفر سیال اور باجی عذرا سیال یاد آئیں۔ دونوں بہن بھائیوں نے تیس سال سے زائد ہوگئے۔ شاد مارکیٹ G-8-2 میں ایک چھوٹا سا ’’جھنگ‘‘ بسایا ہوا ہے۔ اْن کے سامنے وہاں دوسری نسل جوان ہورہی ہے۔ سب انھیں سلام کئے اور ’’پیار‘‘ دیئے، بغیر نہیں جاسکتے۔ بچے ان پر وہ بچوں پر فدا ہیں۔ ایک روز کہنے لگے، میں تو کہیں دفتر میں چلا جائوں پہلے جھنگ کا بندہ تلاش کرتا ہوں۔ پھر اْس بندے کو خالص جھنگوچی لہجے میں کہتا ہوں۔ میں جھنگوں ا?یا ہاں۔ بْھک لگی اے۔ ٹکڑ وی کھوا ، تے کام وی کر۔ آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا کہ ’’ناصر جمال… جھنگ کے کسی بندے نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ یہ اتنے محبت کرنے والے ہیں۔ کسی نے ذات، فرقہ، زبان تک نہیں پوچھی، علاقہ، محلہ سے قطع نظر، جھنگ ہی معتبر حوالہ ٹھہرا۔برادرم اسحاق ساقی(پی۔ پی۔ ایل) کی اپنی سرزمین جھنگ سے خاص محبت ہے۔ انھوں نے جھنگ کے حوالے سے لکھے گئے میرے کالمز کو ’’وائرل‘‘ کردیا۔ ساتھ ہی اپنے خاص دوستوں کو کہا کہ اس ’’نوجوان‘‘ کو فون کرکے اْس کی حوصلہ افزائی ضرور کرنا۔ پہلے عادل شیخ صاحب کا فون ا?یا۔ ان کے صاحبزادے کامران عادل ڈی۔ آئی جی ہیں۔ ایک عرصہ وہ سیاست کے بھی اسیر رہے۔ کہنے لگا میں تمہاری’’نوجوان ایم این اے‘‘ کی ٹرمنالوجی سمجھ گیا تھا۔ اچھا تھا، نام نہیں لکھا۔ اس لئے کالم میں، دو نام لکھنے پر میں نے اْن سے معذرت چاہی۔ عادل شیخ صاحب، لاہور جابسے، مگر جھنگ ان کے اندر سے نہیں نکلتا۔ کرکٹر مقبول سردار کے بھائی ظہور سردار صاحب کا فون آیا۔ انھوں نے فیاض خان  اور رام ریاض کے حوالے سے خصوصی یادیں تازہ کیں۔ پھر ان سے ایئرمارشل آفتاب تابی صاحب کا نمبر مل گیا۔ فیاض خان صاحب کی ان سے عجیب محبت تھی۔ ہم ان سے غائبانہ تعارف رکھتے تھے۔ آفتاب صاحب میرے فون پر حیران رہ گئے۔ کہنے لگے۔ دوبارشورکوٹ رفیقی پر پوسٹنگ ہوئی۔( جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن