وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا تخمینہ تیس ارب ڈالرز سے زائد ہے اور پاکستان کو فوری طور پر تعمیر نو اور بحالی کے لیے سولہ اعشاریہ تین بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سربراہی میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں موسمیاتی تباہ کاریوں کے باعث ہونے والے نقصان کے ازالے اور مدد کے لیے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ سیلاب نے متاثرین کی زندگی بدل کر رکھ دی اور آج ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔پاکستان کے عوام یو این سیکرٹری جنرل کے تعاون کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، عالمی برادری کے بھی تعاون پر مشکور ہیں، مشکل وقت میں مدد کرنے والے ممالک کو پاکستان نہیں بھولے گا سیلاب سے تینتیس ملین لوگ متاثر ہوئے،انفرا اسٹرکچر کی تباہی سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی، سیلاب سے مکانات، تعلیمی ادارے، زراعت کے شعبے کو نقصان پہنچا سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں تاحال سیلاب کا پانی موجود ہے، سیلاب متاثرین کو دوبارہ بحال کر کے اچھا مستقبل دینا ہے۔
پاکستان کو اس کانفرنس سے اچھے نتائج ملے ہیں۔ دنیا پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی بین الاقوامی سطح پر ساکھ کی بحالی اور عالمی برادری کو قائل کرنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ تو بالکل نہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہی برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس سرد موسم میں بھی سیلاب متاثرین کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، ریلیف آپریشن ہوا ضرور ہے لیکن جس بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ مختلف تنظیموں کی مدد سے بحالی ممکن نہیں ہے۔ ریلیف کاموں میں حصہ لینے والی تنظیموں اور شخصیات کا کردار لائق تحسین ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب متاثرین کو بہتر مستقبل دینے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے اور حکومتی سطح پر کام کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں تھے۔ ان حالات میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کردار قابل تعریف ہے۔ انہوں نے عالمی طاقتوں اور اہم ممالک سے مسلسل بات چیت کی اور دنیا کو مدد کے لیے قائل کیا۔ پاکستان میں بلاول بھٹو زرداری پر مختلف حوالوں سے تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ مشکل حالات میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بہت کام کیا اور انہیں کامیابی بھی ملی۔ پاکستان کو عالمی سطح پر متحرک رہنے، اہم ممالک سے مسلسل بات چیت کرنے، تحمل مزاجی اور سمجھداری کے ساتھ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کم عمر ضرور ہیں لیکن معاملات پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ دلیل کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ مسکراتے ہوئے تلخ سوالات کا جواب دیتے ہیں اور بدترین دشمن کو بھی گفتگو سے زیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی والدہ اور نانا کی یادوں کو تازہ کر رہے ہیں۔ ان کے والد آصف علی زرداری نے بھی بہت مہارت کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ بنایا ہے بنیادی طور پر وہ انہیں اس ملک ک سب سے بڑا وزیر بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے جلد بازی کے بجائے مناسب راستہ اختیار کیا۔ آج اگر اس عالمی کانفرنس میں پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا گیا ہے تو اس میں بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
کانفرنس میں اب تک پاکستان کیلئے مجموعی طور پر آٹھ ارب پچہتر کروڑ ڈالر کے وعدے کیے گئے ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے چار ارب بیس کروڑ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ورلڈ بینک کی طرف سے پاکستان کیلئے دو ارب ڈالر، برادر ملک سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کیلئے ایک ارب ڈالرکا اعلان کیاہے، سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر کا اعلان بحالی کے کام میں تعاون کیلئے کیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 1.5 ارب ڈالر، یورپی یونین نے پچاس کروڑ یورو، جرمنی نے آٹھ کروڑ اسی لاکھ یورو دینے کا وعدہ کیا ہے۔ چین نے دس کروڑ ڈالر، جاپان نے پاکستان کیلئے سات کروڑ ستر لاکھ ڈالر،یو ایس ایڈ نے دس کروڑ ڈالر اور فرانس نے چونتیس کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کا اعلان کیا ہے۔ ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے ایک ارب ڈالر اور برطانیہ کی جانب سے نوے لاکھ پاؤنڈز کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس بڑی رقم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام کرنے میں مدد ملے گی اور پاکستان کے مسائل میں کمی آئے گی۔ پاکستان میں سیلب سے متاثرہ افراد کے بہتر مستقبل کے لیے کام جلد شروع کیا جا سکے گا۔
پاکستان میں اس کانفرنس پر بھی تنقید ہو گی، اس سے ہونے والے فوائد کو بھی متنازع بنایا جائے گا یہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست صرف اسے کہتے ہے جو وہ کرتے ہیں، ملک کی خدمت بھی صرف وہی جو وہ کریں، سیاست دان خود کو شاید ملک سے بھی اہم سمجھتے ہیں اور شاید یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ حکومت میں نکیں ہوں گے تو ملک کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ بنیادی طو پر یہ سب انا کے خول میں بند ہیں اور دائیں بائیں دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کے قول و فعل میں بھی تضاد ہے اگر یہ سیاست ملک کے لیے کرتے ہیں تو یہ کام کرنے کے ہر وقت اقتدار میں رہنا تو ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا بھی اقتدار میں ہو تو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر اس کا ساتھ بھی دینا ضروری ہے۔ کاش ہمارے سیاستدان یہ سمجھ جائیں ورنہ ذاتی اختلافات اور ذاتی مفادات کی وجہ بہت نقصان پہلے ہی کر چکے ہیں۔ کاش کہ انہیں احساس ہو جائے۔
سابق گورنر چودھری محمد سرور کہتے ہیں کہ دنیا میں سیاستدان ذاتی مفادات بعد میں اور قومی مفاد پہلے دیکھتے ہیں لیکن ہم بلیم گیم سے نہیں نکلتے، میں نے اخبارات اور ٹی وی میں دیکھا کہ میں پارٹی بنا رہا ہوں پیپلز پارٹی نے پنجاب کی صدارت کی کوئی بات نہیں کی، سیاسی لوگ ملتے ہیں تو سیاسی باتیں ہوتی ہیں، پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے ہیں سینئر رہنما میرے دوست ہیں، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ عمران خان سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا، میں نے جب ن لیگ کو چھوڑا، تب پی ٹی آئی کی مقبولیت اتنی نہیں تھی، پی ٹی آئی حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، پرویز خٹک پولیس ریفارمز نہ کر سکے، پنجاب میں بھی بہتری نہ آئی صرف دعوے کیے گئے۔ عمران خان سے اختلاف کی وجہ اسٹیبلشمنٹ سے نہیں۔عمران خان اور ٹیم وعدوں، دعووں پر عمل نہ کر سکی۔ پاکستان تحریک انصاف نے رائٹ مین فار دا رائٹ جاب کے بیانیے پر عمل نہیں کیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ ہیں۔ چونکہ اب وہ حکومت میں نہیں اس لیے لوگ باتیں کرتے ہیں۔ چودھری محمد سرور کوشش کرتے رہے کہ اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے بہتر کام کر سکیں لیکن اس وقت جو حالات تھے ان میں کام کرنے والے کو دیوار سے لگا دیا جاتا تھا اور امر بالمعروف کرنے والے پر پابندیاں گا دی جاتی تھیں چودھری محمد سرور نے مہذب انداز میں ناکامی کی وجہ بتائی ہے۔ ان کے حوالے سے نئی سیاسی جماعت کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک سیاسی ہی نہیں عوامی شخصیت بھی ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے ابھی تک بہتر انداز میں فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک سیاسی منظر نامے سے دور رہتے ہیں۔