انگریزی زبان کا محاورہ ہے۔
Think before you speak and look before you leap.
(بولنے سے پہلے تولو، چھلانگ لگانے سے پہلے اچھی طرح دیکھ بھال کر لو) کوئی گڑھا، کھائی، راہِ مغیلاں تو نہیں ہیں۔ خان صاحب بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ بیس برس تک برطانیہ میں رہے ہیں۔ یہ محاورہ کئی مرتبہ ان کی نظر سے گزرا ہو گا۔ سنہری مواقع روز روز نہیں آتے۔ اگر ان سے بروقت ، بہتر انداز میں فائدہ نہ اٹھایا جائے تو پھر آدمی تمام عمرِ کفِ افسوس ہی ملتا رہتا ہے۔ ہم پہلے بھی کئی کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ عمران خان خوش قسمت شخص ہے جسے Larger than life image ملا ہے۔ ورلڈ کپ تو ہندوستان کے کپل دیو نے بھی جیتا تھا۔ سری لنکا کے رانا ٹنگا نے بھی اسے چوما تھا۔ دونوں گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں۔ محدودے چند کرکٹ کھیلنے والی قوموں کے دیگر کپتانوں نے بھی یہ اعزاز حاصل کیا تھا، آج ان کے نام تک بھی ذہنوں سے مٹ چکے ہیں،ایک ہمارا خان ہے۔ ”راجہ پاکستانی“ جو برسات کے بادلوں کی طرح برس رہا ہے۔ رعدِ آسمانی کی طرح کڑک رہا ہے۔ ”ضیغم ڈکارتا ہوا نکلا کچھار سے“....”جب میں نے ورلڈ کپ جیتا تھا“ خان صاحب عوامی جلسوں میں اپنی تقریر کا آغاز اکثر ان الفاظ سے کرتے ہیں۔ کرکٹ کے رسیا اور خان کے مداحوں کی تالیوں سے سارا پنڈال گونج اُٹھتا ہے۔
عمران خان ایوانِ اقتدار سے نکلنے یا نکالے جانے کی جو وجوہ بیان کرتے ہیں یا دلیلیں دیتے ہیں اُن سے کافی حد تک اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی نااہلی یا بے عملی کو بھی انہوں نے دوسروں کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ سب سے بڑی دلیل ”امریکی سازش“ ہے۔ انہوں نے ”امریکی غلامی“ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ موجودہ وزیر اعظم کو ”چیری بلاسم“ کہتے ہیں۔ جو خوشامدی ہے اور امریکی سامراج کے بوٹ پالش کرتا ہے۔ اُن سے ڈکٹیشن لیتا ہے۔ ہمہ مقتدر طاقتوں کو بھی موقع بے موقع لتاڑتے رہتے ہیں ”جنہوں نے انہیں ہٹانے میں نمایاں کردار ادا کیا“۔ اگر یہ طاقتیں حسبِ سابق ان کی مدد اور معاونت کرتی رہتیں تو اُنہیں آج یہ ”روزِ بد“ نہ دیکھنا پڑتا۔ آخری وار زرداری پر کرتے ہیں جس نے بقول انکے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔ انکے پارٹی ممبران کو کروڑوں روپے دیکر خریدا گیا۔ سندھ ہاﺅس میں گھوڑوں کے چارے کا وافر مقدار میں بندوبست کیا گیا تھا۔
آئیے ان اقدامات کا نمایاں مقصدیت کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔ امریکی سازش کا بیانیہ خاصا کمزور ہو گیا ہے۔ جب سے انہیں ”امید کی کرن“ نظر آئی ہے انہوں نے امریکی حکام سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ اگر مگر کی گردان شروع ہو گئی ہے۔ ”میرا یہ مطلب نہیں تھا ہم برابری کی بنیاد پر امریکہ سے دوستی چاہتے ہیں! اب حضرت سے کون پوچھے گا کہ جو امریکی صدر روزِ اول سے ہی آپ سے فون پر بات کرنے کا روادار نہیں، وہ اب دیدہ و دل کیسے فرشِ راہ کریگا؟
امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے امریکہ افغانستان سے نکلا ہے، پاکستان کافی حد تک اپنی ”سٹریٹجک“ اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ پاک چین تعلقات اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ہندوستان سے دوستی کی وجہ سے وہ اس ملک کو کوئی بڑی مراعات دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اگر آپ کے استدلال کو مان لیا جائے تو امریکہ اب تک میاں شہباز شریف کے سر پر دستِ شفقت رکھ چکا ہوتا۔ کم از کم اتنی امداد تو ملتی جتنی پرویز مشرف یا ضیاءالحق کے دور میں ملتی تھی! امریکہ نے ایک ٹکہ تک نہیں دیا۔ بائیڈن نے مروتاً بھی میاں شہباز شریف سے فون پر بات نہیں کی۔ یہ کس قسم کی غلامی یا بوٹ پالش ہے؟
آپ نے ہمہ مقتدر طاقتوں کی بات کی ہے۔ کبھی آپ انہیں جانور کہتے ہیں۔ میر جعفر میر صادق کے القابات سے نوازتے ہیں۔ یہ بھی مانتے ہیں کہ قریباً چار سال تک اکثریت نہ ہونے کے باوصف انہوں نے آپ کو اقتدار میں رکھا! آپ روزِ اول سے ہی دریوزہ گر آتشِ بیگانہ تھے۔ سادہ اکثریت بھی نہیں تھی۔ نادیدہ ہاتھ نے بھان متی کا کنبہ جوڑا تھا۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا۔ اتحادی چھوڑ آپ کے 23 ممبران اسمبلی بھی برگشتہ ہو گئے۔ کیا یہ بھی امریکی سازش تھی؟ اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ تھا؟ پارٹی ممبران کو قابو یا خوش رکھنا لیڈر کا کام ہوتا ہے۔ اس کا ایک ہاتھ ان کی نبض پر اور دوسرا خزانے میں ہونا چاہیے۔ ترقیاتی رقوم کونسا اپنی جیب سے دینا ہوتی ہیں....جس نہج پر معیشت جا رہی تھی، جس طرح آئی ایم ایف معاہدے کو توڑا گیا حالات کو قابو میں رکھنا آپکے بس میں نہ ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے اب اس حکومت کے متعلق کہا جا رہا ہے، نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“۔ آپ شاید اتفاق نہ کریں آپ کا بروقت حکومت سے باہر جانا It was a Blessing in Disguise حالات نے آپ کو اب الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کا نادر موقع عطا کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خان اس وقت عوامی مقبولیت میں سب سے آگے ہے۔ جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر جوش نہیں ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرا سی لغزشِ یا تھوڑی سی ذہنی اُپج یا کج روی بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی ہے۔ عدلیہ کے متعلق غلط قسم کی رائے زنی بے موقعہ ، ناعاقبت اندیشانہ فعل ہے۔ چیف الیکشن کمشنر پر دشنام طرازی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ نئے آرمی چیف کے متعلق جو منطق پیش کی گئی ہے وہ مدقوق ہے۔سابقہ سپاہ سالار کو شریف برادران نے تعینات کیاتھا۔ آپ نے مدتِ ملازمت میں توسیع دیکر اس کو کنفرم کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف، پرویز مشرف انہوں نے تعینات کئے۔ آپ نے اسے ریفرنڈم میں سپورٹ کر کے انکے فیصلے کی توثیق کر دی۔
خان صاحب ایک بات غور سے سُن لیں۔ آرمی چیف افواج پاکستان کا سپاہ سالار ہوتا اور کچھ نہیں ہوتا!