منگل،17 جمادی الثانی 1444ھ، 10 جنوری 2023ئ


کسی نئی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہو رہا علیم خان۔ چودھری سرور مشاورت میں مصروف 
لگتا ہے اب پاکستانی سیاست میں ایک نومولود پارٹی کا اضافہ ہونے والا ہے۔ اب خدا جانے یہ ”منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیے“ والا سپرہٹ سانگ کا کردار ادا کرے گی یا ”منا بھائی موٹر چلے پم پم پم“ کی طرح منا بھائی ایم بی بی ایس بن کر پی ٹی آئی والوں کی نیندیں اُڑائے گی۔ عمران خان نے بھی سیاسی انجینئرنگ نہ کرنے کے لیے خدا کا واسطہ یونہی نہیں دیا ہے۔ لگتا ہے انہیں آنے والے خطرات کی سُن گن مل گئی ہے اور ان کی بند مٹھی سے ریت سرک رہی ہے۔ شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے سلیم کوثر نے کہا تھا 
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتہ نہ تھا 
تری داستاں کوئی اور تھی میرا واقعہ کوئی اور ہے 
بہرحال اب پنجاب سے کچھ نئے کچھ پرانے بڑے چھوٹے پی ٹی آئی کے موجودہ اور سابقہ عہدیداران سرجوڑے بیٹھے ہیں۔ دیکھنا ہے پردہ غائب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ فی الحال تو علیم خان جیسے ماہر کھلاڑی نے جو کبھی جہانگیر ترین کی طرح عمران خان کے نفس ناطق یا اے ٹی ایم ہوا کرتے تھے وضاحت کی ہے کہ وہ کسی نئی سیاسی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں نہ ایسی کوئی پارٹی بن رہی ہے۔ اس کے برعکس سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ اس ساری سرگرمی میں جہانگیر ترین کا بھی نام آ رہا ہے۔ چودھری سرور تو مسلسل مختلف سیاسی رہنماﺅں اور پی ٹی آئی کے عہدیداروں سے رابطے میں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ نومولود سیاسی جماعت ان کی گود میں آنکھیں کھولے۔ شاید انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ پاکستان ہے برطانیہ نہیں۔ یہاں کوئی صادق و امین نہیں کوئی اپنی ذات سے ہٹ کر نہیں سوچتا۔ اب شاید وہ کوئی ایسی پارٹی بنانا چاہتے ہیں جو نیک نام ہو مگر سوال یہی ہے کہ نیک نام لوگ وہ لائیں گے کہاں سے۔ کیا برطانیہ سے منگوائیں گے۔ یہاں تو قحط الرجال ہے۔ 
٭٭٭٭٭
حافظ آباد میں دولہا شادی کے دن بازار میں چائے فروخت کرتا رہا
نوبت اینجا رسید۔ جی ہاں اب تو بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دولہا میاں خود شادی کا سوٹ پہننے کیلئے ہوٹل پر چائے فروخت کر رہے ہیں۔ مہنگائی نے ہمیں اس حال پر پہنچا دیا ہے۔ اشرافیہ کو تو چھوڑیں ان کیلئے سارے غریب غرباءمر جائیں تو بھی ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ وہ تو عالی شان ہوٹلوں میں‘ فارم ہاﺅسز میں شادی بیاہ کی تقریبات مناتے ہیں جہاں کے ویٹر بھی صاف ستھرا خوبصورت ڈریس پہنتے ہیں مگر غریبوں کی یہ حالت ہے کہ دولہا بھی رزق کمانے کیلئے شادی کے دن بھی کام کر رہا ہے۔ آخر اس بے چارے نے بھی عروسی کی شب دلہن کو منہ دکھائی میں کچھ نہ کچھ تو دینا ہوتا ہے۔ امرا تو ہیروں کا سیٹ دیتے ہیں‘ غریب اگر کانچ کی چوڑیاں ہی دے تو یہی غنیمت ہے۔ اقبال یونہی تو نہیں کہتے:
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر اسے روز مکافات
خدا اس چائے فروش کو سلامت رکھے‘ جس نے بڑے فخرسے کہا ہے کہ محنت میں کوئی عار نہیں۔ کام کروں گا تو گھر کے اخراجات پورے ہونگے۔ اب کم از کم ہمارے معاشرے میں بھی خوشحالی ناچ رہی ہوتی تو اول تو اسے شادی کے دن کام کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اب اردگرد کے دکاندار اور صاحب حیثیت افراد کو چاہئے تھا کہ وہ اس دولہا کو چائے کی قیمت کے ساتھ سلامی بھی دیتے تو اس کو چار پیسوں کی بچت ہوتی مگر شاید ہمارے ہاں حساس دل مر چکے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭
اگلے ماہ الیکشن کی تاریخ آ جائے گی: عمران خان 
یہ کونسی نئی بات ہے جو لوگوں کے علم میں نہ ہو۔ سب جانتے ہیں کہ 2023ءیعنی موجودہ سال الیکشن کا ہی ہے۔ صرف پی ٹی آئی والے اس سے پہلے الیکشن کرانے کی مہم چلا رہے تھے جو کامیاب نہ ہوئی۔ اب تو کیا اپوزیشن کیا حکومت سب جانتے ہیں کہ 2023ءالیکشن کا سال ہے ہاں اگر حکمرانوں کی نیت میں فتور آ جائے اور وہ کھینچ کھانچ کر اسے 2023ءسے آگے لے جانے کی کوشش کریں تو سیاسی صورتحال میں بھونچال آ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی ہی نہیں خود حکمران اتحاد میں بھی اس کے خلاف آواز بلند ہو سکتی ہے۔ عمران خان کا تو مسلسل بیانیہ یہی ہے کہ حکمران الیکشن سے فرار چاہتے ہیں۔ جبھی تو وہ 2022ءمیں ہی الیکشن کرانے کے درپے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا اور اب عمران خان نہایت دل گرفتہ حالت میں کہہ رہے ہیں کہ عوام الیکشن کی تیاری کریں یہ الیکشن کاسال ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب خان صاحب اور باقی سب جان چکے ہیں کہ الیکشن اکتوبر میں ہوں گے اس لیے اب جلد یا فروری ،مارچ میں الیکشن کا چورن بیچنے والے شیخ رشید ، اسد عمر، فواد چودھری اینڈ کمپنی اپنی اپنی ریڑھی بازار سے ہٹا لیں ورنہ کہیں انسداد تجاوزات والے آ کر ان کے پھٹے نہ اکھاڑ دیں۔ فی الحال تو پی ٹی آئی نہیں حکمران اتحاد کا بیانہ کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اب خدا جانے الیکشن کب ہوتے ہیں اور اس میں کون کامیاب ہوتا ہے یہ بعد کا مسئلہ ہے۔ 
٭٭٭٭٭
ایک بار چارلس نے کہا مجھے نہیں لگتا میںتمہارا حقیقی باپ ہوں: پرنس ہیری
خود نوشت لکھنا ایک دلچسپ فن ہے۔ بڑے بڑے ادیب‘ شاعر‘ سیاستدان‘ سول و فوجی افسران نے بڑی خوبصورتی سے اپنی حیات کے واقعات شاندار نثر میں لکھ کر انہیں افسانوی رنگ دیا ہے۔ اب برطانیہ کے شہزادہ ہیری نے بھی جو شاہی خاندان میں دوسرے نمبر پر تھے یعنی چھوٹے شہزادے تھے، اپنی جوانی میں ہی اپنی یادداشت کہہ لیںیا خود نوشت تحریر کرکے برطانیہ میں جو تہلکہ مچانا تھا مچا دیا۔ دنیا میں بھی ان کی اس کتاب کی اشاعت کا بڑی بے چینی سے شدت سے انتظار کیا جا رہاہے کیونکہ شہزادہ ہیری کی اپنی زندگی بڑے خوبصورت واقعات سے عبارت ہے۔ خاندانی طورپر شاہی خاندان سے تعلق حسن کی دیوی لیڈی ڈیانا اور موجودہ برطانیہ کے بادشاہ شہزادہ چارلس کا چھوٹا بیٹا ہونا ہی بہت تھا مگر وہ جس طرح اپنی محبوبہ اور اہلیہ کیلئے شاہی خاندان اور روایات سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے شاہی منصب سے دستبردارہو کر شہزادے کی بجائے عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں یہ سب بھی افسانوی ہے۔ لیڈی ڈیانا کی زندگی میں ہی ان کے بہت سے افیئرز مشہور ہوئے۔ شاید اسی وجہ سے بادشاہ چارلس نے اپنے بیٹے سے یہ بات مذاقاً کہی ہوگی یاغصہ میں۔ پرنس ہیری نے یہ واقعہ بھی کتاب میں تحریر کیا ہے۔ ایسے کئی اور واقعات بھی تحریر ہونے کی وجہ سے یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ اس میں پڑھنے کیلئے اور بھی بہت کچھ ہے۔ رہی بات حقیقی باپ ہونے کی تو چہرے مہرے سے رنگ روپ سے پرنس ہیری واضح طورپر اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنی دادی مرحوم ملکہ الزبتھ کے ہم شکل نظر آتے ہیں۔ وہی برطانوی نین نقش گورا رنگ سنہری بال اور نیلی آنکھیں‘ انہیں ایک مکمل برطانوی شہزادے کی تصویر بناتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن